ایک میں آتا۔ یہ جناب قاضی صاحب کا پیش کردہ کبریٰ ہے۔
لطیفہ! مندرجہ بالا چارکتب جامع ترمذی۔ ارشاد الساری، عمدۃالقاری اورفتح الباری میں دیوبندی مقلدین کا مذہب بیس رکعت سنت نبویہ مذکور نہیں اور شور یہ مچایاجارہاہے۔ کہ آٹھ کامذہب ان میں مذکورنہیں آخر یہ کیسی چالاکی ہے۔
غلطی نمبر8:
قاضی صاحب پمفلٹ صفحہ نمبر 42 پراپنی طرف سے ایک سوال کرتے ہیں۔ ”تو کیا بیس رکعت باجماعت صلوٰۃ تراویح کامسنون ہونا بھی کسی کامذہب ہے پھر خود ہی اس کاجواب دیتے ہیں۔ “ ضرور امت کی اکثریت کا صحابہ، تابعین تبع تابعین۔ آئمہ مجتہدین میں سے اکثر کامذہب یہ ہے۔ “
قارئین کرام! قاضی صاحب کا جواب بالکل غلط ہے اکثریت تو کجا وہ صرف ایک صحابی اور ایک تابعی اورآئمہ مجتہدین حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اورحضرت امام احمد حنبل رحمۃ اللہ علیہ میں سے صرف ایک ہی امام کا اسم گرامی پیش کریں۔ جنہوں نے یہ فرمایا کہ بیس رکعت باجماعت صلوٰۃ تراویح سنت نبویہ ہے ویسے نفس الامر کےخلاف دعاوی سے عوام کو دھوکہ دینا خود کو اہل علم کہلانے کے منافی ہے۔
غلطی نمبر 9۔
قاضی صاحب پمفلٹ صفحہ نمبر 42 پر ہی فرماتے ہیں کہ”بیس رکعت باجماعت صلوٰۃ تراویح کا مسنون ہوناامت کی اکثریت کا مذہب ہے۔ “اور اس کاحوالہ یوں بیان فرماتے ہیں۔ “مندرجہ بالاکتب میں یہ مذکورہے۔ “
معزز ناظرین! وہ مندرجہ بالا کتب یہ ہیں۔ جامع ترمذی، ارشادالساری عمدۃالقاری اور فتح الباری۔ اور یہ حوالہ انتہائی غلط ہے مندرجہ بالا کتب میں کہیں بھی مذکور نہیں کہ بیس رکعت باجماعت صلوٰۃ ترایح کا مسنون ہونا امت کی اکثریت کامذہب
|