حدیث متروک ہے۔ اور نہ کوئی اور مقبول حدیث بلکہ وہ تو قرآن و حدیث سے سرموانحراف کو ایمان کے منافی سمجھتے ہیں۔ اور صحیح حدیث کے متعلق فلا يجب علينا قبوله ہم پر اس کا قبول کرنا واجب نہیں“ایسے نظریہ کو ہم کفر بواح گردانتے ہیں۔ فرمائیے جناب اور کیا حکم ہے؟
غلطی نمبر6:
قاضی صاحب پمفلٹ صفحہ نمبر41پرصحیح بخاری کے حوالہ سے مندرجہ ذیل جملہ نقل فرما رہے ہیں: فِرَّ مِنَ الجْذُومِ
جناب صحیح بخاری میں وارد شدہ لفظ الجْذُومِ نہیں بلکہ المَجْذُومہے چنانچہ صحیح بخاری صفحہ نمبر750 جلد نمبر2 میں ہے”وفِرَّ مِنَ المَجْذُومِ كما تَفِرُّ مِنَ الأسَدِ“افسوس ہے کہ ان لوگوں کو اپنی وسعت علم پر بھی ناز ہے لیکن غلطیاں وہ کر رہے ہیں جو معمولی درس نظامی کا طالب علم بھی نہ کرےاب نامعلوم لفظ المَجْذُومسے حرف ”میم“نکالنے سے کون سی چیز لگانا کار فرما ہے شاید اس حرف میم نکالنے سے ”مقلدیت“کے جامہ کو تقویت دینا مقصود ہو گا۔
غلطی نمبر7:
قاضی صاحب پمفلٹ صفحہ نمبر41پر ہی فرماتے ہیں”جامع ترمذی ارشاد الساری، فتح الباری اور عمدۃ القاری میں سے کسی ایک میں بھی آٹھ کا مذہب ذکر نہیں کیا گیا۔۔ ۔ الخ۔ “
جناب من!مندرجہ بالا چاروں کتب جامع ترمذی، ارشاد الساری، فتح الباری اور عمدۃ القاری میں پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وسلم کا مذہب آٹھ رکعت نماز تراویح مذکورہے۔ کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم رمضان و غیر رمضان میں گیارہ رکعت پر اضافہ نہیں فرمایا کرتے تھے۔ فتح الباری اور عمدۃ القاری میں یہ بھی ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نےصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رمضان میں آٹھ رکعت نماز پڑھائی۔ پھر فتح الباری اور عمدۃ القاری میں خلیفہ ثانی سید نا حضرت عمر
|