ہے اور نمبرسوم (کہ سارے سال میں وتر تین رکعت ہی ادا ہوتے تھے)بھی متروک ہے۔ “
تو جناب قاضی صاحب نمبردوم نمبر سوم کو حدیث یا حدیث کا مفہوم سمجھ رہے ہیں۔ اور یہ غلط ہے نمبر دوم و نمبر سوم نہ حدیث ہے نہ حدیث کا مفہوم بلکہ ہے یہ صرف قاضی صاحب کا ہی مزعوم۔ تو نمبردوم نمبر سوم جب نہ حدیث ہےاورنہ حدیث کا مفہوم۔ تو اس کا اہلحدیث حضرات کے ہاں متروک ہونے میں کیا مضائقہ۔ البتہ قاضی صاحب کی جسارت عظمیٰ واضح ہو رہی ہے کہ انھوں نے اپنے موہوم نمبر دوم و نمبر سوم پر کس طرح حدیث کا لیبل لگایا۔ (اعاذنا اللّٰه من ذالك)
غلطی نمبر5:
قاضی صاحب پمفلٹ صفحہ نمبر39پر بہت سی گل افشانیاں کر رہے ہیں، فرماتے ہیں:”توگویا(حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی)حدیث (ان كے اہلحدیث) کے نزدیک متروک العمل ہے۔ “
جناب قاضی صاحب نمبر دوم و نمبر سوم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث یا حدیث کا مفہوم سمجھ کر مندرجہ بالا عبارت فرما رہے ہیں۔ آپ پہلے پڑھ چکے ہیں۔ کہ نمبر دوم و نمبر سوم نہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث ہے نہ ہی اس كا مفہوم۔ تو جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث ہے وہ حدیث ہے وہ بمعہ اپنے مفہوم اہلحدیث کے ہاں زیر عمل ہے۔ اور قاضی صاحب کا موہوم نمبردوم نمبر سوم جو اہل حدیث کے ہاں متروک العمل ہے وہ کوئی حدیث نہیں نہ کسی حدیث کا مفہوم ہے تو غور فرمائیےاس میں”میٹھا میٹھا ہڑپ کڑوا کڑوا تھو“والی کونسی بات ہے۔ پھر”میٹھا میٹھا ہڑپ کڑوا کڑوا تھو“میں کوئی مضائقہ نہیں۔ کیونکہ قرآن مجید میں ہے۔ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُالبتہ غور طلب مقام یہ ہے کہ اہل رائے حضرات جو کڑوا کڑوا تھوکا مصداق بنے ہوئے ہیں۔ آخر ان کا کیا حال ہو گا۔
تو اطلاعاً عرض ہے کہ اہلحدیث کے ہاں نہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی
|