Maktaba Wahhabi

278 - 896
بالا بات نہ حنفی مدلول ہے نہ واضح و ظاہر۔ اور اس بارہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی عبارت صرف اس قدر ہے(ثُم يُصلى ثلاثًا، ) پھر آپ تین رکعت پڑھتے۔ نہ تو اس میں سارے سال کا ذکر ہے نہ آدھے کا۔ اور نہ ہی اس میں تین وتر کا ایک اسلام سے پڑھنے کا بیان ہے نہ ہی دو سلام سے بلکہ بخاری ومسلم دیگر کتب حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے ہی مروی ہے(أن يُوتِرَ بواحدةٍ)آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت وتر پڑھتے۔ لیکن جناب قاضی صاحب نے بلا سوچے سمجھے مذہب کی پچ میں آکر سارے سال کے لفظ حدیث مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں بڑھادئیے۔ إِنَّا للّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ یہ اہل رائے حضرات ہیں کہ پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارك حدیث کے ساتھ بھی اس قسم کا نارواسلوک کرنے سے باز نہیں آتے۔ اعتراض ہو سکتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث میں چار رکعت اور تین وتر کے بارےمیں سارے سال کا ذکر نہیں تو پھر گیارہ رکعت پر اضافہ کی نفی کے بارےمیں سارے سال کا ذکر اس میں کہاں ہے؟ تو جناب اس جملہ میں”مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً“ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم رمضان و غیر رمضان میں گیارہ رکعت پر اضافہ نہیں فرماتے تھے۔ اوررمضان و غیر رمضان سارے سال کو شامل ہے۔ دوسرا یہ بھی اعتراض ہو سکتا ہے کہ اگر تین وتر سارا سال نہ مانیں تو پھر آپ کی نماز بسااوقات گیارہ رکعت سے کم ہو جائے گی۔ تو جناب!حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے گیارہ رکعت سے کم کی نفی نہیں فرمائی۔ بلکہ گیارہ رکعت پر اضافہ کی نفی فرمائے ہے۔ فتدبر غلطی نمبر4: قاضی صاحب پمفلٹ صفحہ نمبر39 پر ہی فرماتے ہیں۔ ”اب غیر مقلدین کے نزدیک نمبر دوم (سارے سال میں چار چار رکعت اکٹھی ادا ہوتی تھیں) بھی متروک
Flag Counter