المروزي من طريق عطاء الخ عبارت کا حوالہ یہ دیا ہے فتح الباری جلد نمبراول صفحہ نمبر180۔
جناب والا! مندرجہ بالا عبارت فتح الباری جلد اول میں کہیں بھی مذکور نہیں۔ نامعلوم قاضی صاحب نے یہ حوالہ کسی چھوٹی موٹی رسالی سے نقل فرمادیا۔ دراصل یہ تقلید کا ہی ثمرہ ہے اور ہے بھی بہت میٹھا اور اس کا مزا تو قاضی صاحب ہی جانتے ہوں گے۔
غلطی نمبر2۔
قاضی صاحب صفحہ نمبر39پر فرماتے ہیں حضرت عائشہ کی حدیث سے یہ بات واضح ہو رہی ہے۔ کہ سارے سال میں چار چار رکعت اکٹھی ادا ہوتی تھیں۔
یہ بالکل غلط ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث سے مندرجہ بالاجات نہ حنفی مدلول ہے نہ واضح و ظاہر۔ اس بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی عبارت صرف اس قدر ہے(يصلي بها أربعاً)آپ چار رکعت پڑھتے۔ نہ تو اس میں سارے سال کا ذکر ہے نہ آدھے کا۔ اور نہ ہی علیحدہ علیحدہ اور اکٹھی کا ذکر ہے۔ بلکہ بخاری و مسلم اور دیگر حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے مروی ہے (يُسَلِّم بين كل ركعتين)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے۔ آپ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ حدیث ہے اہل رائے حضرات کی فقہ نہیں کہ اس کا انحصار بزرگوں کی من مانی پرہو۔
غلطی نمبر3:
قاضی صاحب پمفلٹ صفحہ نمبر39 پر ہی فرماتے ہیں۔ ” حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سارے سال میں وتر تین رکعت ہی ادا ہوتے ہیں۔ “
تو جناب یہ بھی غلط ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث سے مندرجہ
|