چارے اس سے بیس رکعت کے سنت نبویہ ہونے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ رمي بسهم نفسه۔
متضاد بيان نمبر 3:
قاضی صاحب پمفلٹ صفحہ نمبر13 پرهذا محمول علي غير الوتر عبارت کا حوالہ دے رہے ہیں۔ فتح الباری جلد نمبر4۔ لیکن کیا کیا جائے۔ بیچارے قاضی صاحب کو سہو و نسیان سے از حد الفت ہے خواه دیوالیہ ہی نکل جائے۔ قاضی صاحب نے بھی سہوو نسیان کو ایسا اپنایا ہے کہ وہ زندگی بھر ان کی شرات نہیں چھوڑیں گے۔ چنانچہ اس جگہ پر بھی اس عبارت کو قاضی صاحب نے اپنے عزیز ترین دوست سہو ونسیان کی نذر کیا ہےاور سہو ونسیان کی رفاقت سے اسی حوالہ نے صفحہ نمبر37پر جلد اول کا روپ دھار لیا۔ لیکن جتنی مدت تک قاضی صاحب اپنے سہو کی معافی نہیں مانگیں گیں اتنی دیر تک اسے تضاد بیانی سے ہی تعبير كیا جائے گا۔ آخر بشیر صاحب، ماسٹر نصر اللہ خاں اور ماسٹرعباس علی ایسے حواریوں کے لیے اصل کتابوں کے دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ تو اتنے پر ہی جھوم جھوم کر سر ہلانا شروع کر دیتے ہیں۔
تیسرا حصہ
قاضی صاحب کی اغلاط
قاضی صاحب کی تحریر کو اگر مغالطات اور متضاد بیانات ایسے زیورات نے زینت بخشی ہے۔ تو اغلاط ایسے جو اہر نے بھی اس کی رونق کو چار چاند لگانے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں اٹھا رکھی۔ چند اغلاط بطور نمونہ درج کی جاتی ہیں۔
غلطی نمبر1:
قاضی صاحب نے پمفلٹ صفحہ نمبر37 پر (لم يقع في هذه الرّواية عدد الرّكعات الّتي كان يُصلّي بها أُبَي، بن كعب، تاوروي محمد بن نصر
|