رکعت والی روایت کےضعف پراتفاق ہے۔ تو حضرت ابن عباس کی روایت کے ضعف کو تلقی بالقبول حاصل ہے۔ اور جناب قاضی صاحب ہیں کہ تلقی بالقبول سے اس کا ضعف منجبر کرنے کے درپے ہیں۔ یہ بھی کیسا طرفہ ہے۔
متضاد بیان نمبر2:
قاضی صاحب پمفلٹ صفحہ نمبر 14 پر فرماتے ہیں” اب یہی صحیح ہے کہ بیس رکعت نماز تراویح ادا کی جائے۔ “ نیز صفحہ نمبر 45 پر بیان کرتے ہیں”اب پھراتباع سنت تو یہی ہے کہ بیس کوہی سنت سمجھ کر ان پر عمل کیاجائے۔ “لیکن پمفلٹ صفحہ نمبر19 حاشیہ پر انہیں مندرجہ بالاباتوں سے نسیان ہوگیا تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ ”رکعات کاعدد کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ “نیزصفحہ نمبر 40 پر فرماتےہیں۔ “جو شخص خیال کرتا ہے کہ قیام رمضان میں کوئی متعین عدد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ جس میں کمی زیادتی نہیں ہوسکتی۔ تو وہ غلطی کرتا ہے۔ “قارئین اندازہ فرمائیے کہ بیس رکعت سنت نبویہ کہنا بھی تو متعین عددمیں شامل ہے۔ یہ بھی کہیں غلط تو نہیں۔
نوٹ:
قاضی صاحب کافرمان کہ ” رکعات کا عدد کسی صحیح احادیث سے ثابت نہیں “ قطعاً غلط ہے۔ اس کے لیے آپ دوسرے باب کو ملاحظہ فرمائیں۔ آ پ کو معلوم ہوگا۔ کہ آٹھ رکعت نمازتراویح پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث ثابت ہے۔ یہ بھی عجیب امتیاز ہے کہ اگر کوئی چیز قاضی صاحب کے طبع نازک پر گراں گزرے تو وہ صحیح نہیں ہوسکتیں دوسرے لفظوں میں یہ حدیث صحیح سے روگردانی نہیں تو اور کیا ہے؟البتہ بیس رکعت تراویح کاسنت نبویہ ہونا کسی ایک صحیح حدیث سے بھی ثابت نہیں ؎
پس مصور ملے گا عشق وہوس میں بھی امتیاز
آیا ہے اب مزاج تیرا امتحان پر
لطیفہ! عجیب بات یہ ہے کہ جناب قاضی صاحب نے آٹھ رکعت تراویح کو مد نظر رکھتے ہوئے فرماتو دیا۔ کہ”رکعات کاعدد کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ “لیکن بے
|