کے متعلق یوں فرماتے:
” کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ ساری امت خلاف سنت پر متفق ہوگئی تھی“ نیز صفحہ نمبر 46 پر بیس رکعت والی ضعیف روایت کے متعلق فرماتے ہیں۔ ”پھر جب ساری اُمت اس کے مطابق عمل کررہی ہے تو تلقی بالقبول سے اس کا ضعف مخبر ہوجائےگا۔ “
ناظرین کرام! جناب قاضی صاحب سے دریافت فرمائیں۔ کہ آپ نے پہلے خود ہی بیان فرمایا کہ مندرجہ بالا چار کتب میں مذاہب مختلفہ دربارعدد رکعت تراویح ذکر کیے گئے ہیں۔ اور آپ خود ہی فرمارہے ہیں۔ کہ ”بیس پر ساری اُمت کا اتفاق ہے۔ “ تو ان دونوں باتوں سے کونسی بات غلط ہے۔
قاضی صاحب کا یہ کلام کہ ” کیایہ کہنا درست ہوگا۔ کہ ساری اُمت خلاف سنت پر متفق ہوگئی تھی؟ اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ بیس رکعت تراویح سنت نبویہ پر ساری اُمت کااتفاق ہے اور یہ بالکل غلط ہے۔ آپ پانچویں باب میں پڑھ چکے ہیں کہ محققین حنفی علماء کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ آٹھ رکعت نمازتراویح سنت نبویہ ہے۔ بیس رکعت نماز تراویح سنت نبویہ نہیں ہے بیس رکعت سنت نبویہ ہونے پر تو بے چاری امت حنفیہ کا بھی اتفاق نہیں۔ ساری امت کا بیس رکعت کی سنیت پر کیسے اتفاق ہوسکتاہے۔
اچھاقاضی صاحب اگر بیس رکعت سنت نبویہ پر ساری امت کااتفاق ہے ا ورآپ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں۔ تو آئمہ اربعہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اورحضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ میں سے صرف ایک ہی امام کا قول نقل فرمادیں۔ جس میں انہوں نے فرمایا ہو۔ کہ”بیس رکعت نماز تراویح سنت نبویہ ہے۔ “ دیکھئے قاضی صاحب کب ارشاد فرماتے ہیں۔ فَانتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ
لطیفہ! آپ تیسرے باب میں پڑھ چکے ہیں کہ حضرت ابن عباس کی بیس
|