تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ تو متعین عدد نماز تراویح کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول سمجھتے ہیں۔ اور متعین عدد نماز تراویح ہی آپ کی سنت کہہ رہے ہیں۔ لیکن جناب قاضی نے بھی عوام کو مغالطہ دینے میں حضرت مولانا ابو زاہد صاحب کے اُسوہ کی پیروی کرنے سے سرمو بھی انحراف نہیں کیا۔ بہر حال قاضی صاحب نے جو اندازاختیار کیا وہ آپ کے سامنے ہے۔ لیکن اتنی بات ضروریاد رکھیں۔ کہ اس قسم کے حربہ جات کا استعمال علم کا دعویٰ کرنے والوں کے شایان شان نہیں ہوا کرتا۔
اعتراض:
جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ دونوں مجتہد بزرگ متعین عدد صلوٰۃ تراویح کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قراردیتے ہیں۔ تو پھر انھوں نےجناب قاضی صاحب کے نقل کردہ بیانوں میں کس بات کی نفی فرمائی۔
الجواب:
جناب انہوں نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ عددکے ماسوا جو صلوٰۃ تراویح کے اعداد متعین کیے جاتے ہیں۔ مثلاً 16، 20، وغیرہ ان کی نفی فرمائی۔ اورفرمائیے جناب کیا حکم ہے۔
مغالطہ نمبر 3:
قاضی صاحب لم يقع في هذه الرواية الخ پمفلٹ صفحہ نمبر 37 تاصفحہ نمبر 38 پر قارئین کو یہ مغالطہ دینا چاہتے ہیں۔ کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی سائب بن یزید کی گیارہ رکعت والی روایت کو بوجہ اختلاف ساقط الاعتبار قراردیا ہے۔ اور سائب بن یزید کی بیس رکعت والی روایت کی تائید فرمائی ہے۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ بلکہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ تو سائب بن یزید کی گیارہ رکعت والی روایت کو ان کی بیس رکعت والی روایت پر یوں ترجیح دیتے ہیں:
وَالْعَدَدُ الْاَوَّلُ مُوَافِقُ لِحَدِيْثِ عَائِشَةَ الْمَذكُوْرِ بَعْدَ هٰذَا الْحَدِيْثِ
|