میں بیان کیا ہے پہلے انھوں نےحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث کہ ”پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم رمضان وغیر رمضان میں گیارہ رکعت پر اضافہ نہیں فرمایا کرتے تھے۔ “بیان کی۔ پھر حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کہ ”پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو رمضان میں آٹھ رکعت نماز پڑھائی۔ “ سے ثابت کیا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم متعین طورپرآٹھ رکعت نماز تراویح ہی پڑھا کرتے تھے۔ پھر حضرت عباس کی بیس رکعت والی روایت کا ضعف ثابت کر کے انھوں نےبیس رکعت سنت کے علمبرداراور اہل رائے حضرات کے دعویٰ پر پانی پھیر دیا۔
ناظرین! آپ دھوکے میں نہ آئیں۔ اور امام شوکانی کی مندرجہ بالا عبارت کی روشنی میں یہ اندازہ لگائیں۔ کہ یہ لوگ اپنا اُلو سید ھا کرنے کے لیے کیسے کیسے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔
مغالطہ نمبر2۔
قاضی صاحب فتاوی ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے مندرجہ ذیل عبارت نقل فرما کر فریب کاجال بُننے کی سعی میں ہیں۔
”جو شخص خیال کرتا ہے کہ قیام رمضان میں کوئی متعین عدد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت ہےجس میں کمی وزیادتی نہیں ہو سکتی۔ تو وہ غلطی کرتا ہے۔ “(پمفلٹ صفحہ نمبر40)
تو قاضی صاحب یہاں پر بھی بڑی فنکاری سے عوام کو یہ مغالطہ دینا چاہتے ہیں۔ کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ بھی متعین عدد تراویح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول نہیں سمجھتے۔ حالانکہ یہ بات قطعاً غلط ہے مطلب پرستی کی خاطر قاضی صاحب امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی اس سے چند سطور قبل عبارت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
(بَلْ كَانَ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَزيدُ في رمضان أوْ غيْرِه عَلٰى ثَلاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً(
(فتاوی ابن تیمیہ صفحہ نمبر401جلدنمبر35)
بلکہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم رمضان و غیر رمضان میں تیرہ رکعت پر اضافہ نہیں فرمایا کرتے تھے۔
|