ہوں۔ اور نہ ہی کسی کو ترک کرنے کی تلقین کرتا ہوں۔ اور نہ ہی میری جماعت حنفیہ کرام آٹھ کی سنیت کےمنکر یا تارک ہیں۔ بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ آٹھ رکعت سنت ہیں۔ سنت ہیں۔ “ (القول الفصیح صفحہ نمبر 5)
1۔ تو قاضی صاحب کے محترم مکرم چچا جناب قاضی شمس الدین صاحب نے اپنا ہی نہیں بلکہ تمام اہل رائے حضرات کا اجماعی مسلک بیان کیاہے کہ”نہ ہی میری جماعت حنفیہ کرام آٹھ کی سنیت کے منکر یا تارک ہیں۔ بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ آٹھ رکعت سنت ہیں۔ سنت ہیں۔ “ جناب قاضی صاحب نے”سنت ہیں۔ “ کا لفظ تقریراً اور کیداً دوبارہ بولا ہے تاکہ بعض الناس یہ نہ سمجھیں کہ ہمارے شیخ الحدیث قاضی صاحب کو ”آٹھ رکعت سنت ہیں“ کہنے میں سہو ہوگیا تھا۔
2۔ قاضی صاحب کے محترم مکرم چچا صاحب کا بیان تو آپ نے پڑھ لیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ آٹھ رکعت سنت ہیں سنت ہیں۔ “ اور ادھر قاضی صاحب کے ارشاد یہ ہیں کہ”رکعات کا عدد کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں“ پھر اتباع سنت تو یہی ہے کہ بیس رکعت کو ہی سنت سمجھ کر ان پر عمل کیا جائے۔ ناظرین! اب آپ ہی فیصلہ کرلیں کہ دونوں قاضی بزرگان میں سے کون غلطی پر ہے۔ ہم تو انہیں یہ کہیں گے۔
)فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ......الخ (
3۔ قاضی صاحب کے دس بزرگوں کے ارشادات تو آپ پڑھ چکے جو سب کے سب اس بات کے قائل ہیں۔ کہ پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام رمضان گیارہ رکعت ہی تھا۔ تو اس سے جناب قاضی صاحب کے بیس رکعت پر ساری اُمت کے اجماع کی بھی قلعی کھل گئی۔ بیس رکعت کی سنت پر ساری اُمت تو کجا صرف اُمت حنفیہ بھی متفق نہیں۔ بلکہ ان دس بزرگوں کےعلاوہ دیگر اہل رائے حضرات بھی ہمارے ہم نوا ہیں۔ والفضل ما شهدت به الأعداء
|