فتوی نقل کرنے کے بعد سکوت فرمایا ہے۔ کہ گیارہ رکعات بمعہ وتر سنت نبویہ ہے اور اس پر کسی قسم کی تنقید نہیں کی۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ انہیں امام ابن ہمام کے فتوی سے پورا پورا اتفاق ہے ورنہ وہ ضرور بالضرور اس پرلب کشائی کرتے۔ اور کچھ نہیں تو کم ازکم قاضی صاحب کی طرح ہی کہہ دیتے۔ کہ”ان بزرگوں کی انفرادی رائے ہے۔ “
علامہ زیلعی حنفی رحمۃ اللہ علیہ :
قاضی صاحب کے بزرگ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیس رکعت والی روایت نقل کر کے فرماتے ہیں:
(وَهُوَ مَعْلُولٌ، بِأَبِي شَيْبَةَ إبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ، جَدِّ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، وَهُوَ مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ، وَلَيَّنَهُ ابْنُ عَدِيٍّ فِي "الْكَامِلِ"، ثُمَّ إنَّهُ مُخَالِفٌ لِلْحَدِيثِ الصَّحِيحِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ، كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟، قَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ، وَلَا فِي غَيْرِهِ، عَلَى إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً)
(لغیب الرٰیہ جلد نمبر1)
”اور وہ ابن عباس کی حدیث، امام ابو بکر بن ابی شیبہ کے دادا ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کی وجہ سے معلول ہے۔ اور اس کے ضعف پر اتفاق ہے۔ اور ابن عدی نے اسے کامل ضعیف کہا ہے۔ پھر یہ صحیح حدیث کے بھی مخالف ہے۔ کہ ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے دریافت کیا کہ پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کیسی تھی۔ تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے فرمایا۔ آپ رمضان میں وغیر رمضان میں گیارہ رکعات پر اضافہ نہیں فرمایا کرتے تھے۔ “
تو علامہ زیلعی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہ مسلک ہے کہ”پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وسلم رمضان وغیر رمضان میں بھی گیارہ رکعات سے زائد نہیں پڑھا کرتے تھے۔
اب تو قاضی صاحب کے زعم میں یہ چیز دور ہو گئی ہو گی۔ کہ حضرت مولانا
|