وغيره.، وقال يحيى مرة : لا يكتب حديثه، وقال البخاري : فيه نظر، وقال النسائي : ضعيف، وقال ابن عدي : أكثر حديثه مما لا يتابع عليه)
(تحفۃ الاحوذی صفحہ نمبر75جلد نمبر2)
”(اوراس اثر کے راوی)حماد بن شعیب ضعیف ہیں۔ حافظ ذہبی میزان میں فرماتے ہیں یحییٰ بن معین اور دیگر محدثین نے اسے ضعیف کہا یحییٰ نے ایک دفعہ فرمایا اس کی حدیث قابل کتابت نہیں اور امام بخاری فرماتے ہیں۔ اس میں نظر ہے۔ اور امام نسائی فرماتے یہ ضعیف ہے اور ابن عدی فرماتے ہیں۔ اس کی اکثراحادیث کی متابعت نہیں ملتی۔ “
فائدہ جلیلہ:
(وقال الشيخ بن الْهُمَامِ فِي التَّحْرِيرِ إِذَا قَالَ الْبُخَارِيُّ لِلرَّجُلِ فِيهِ نَظَرٌ فَحَدِيثُهُ لَا يُحْتَجُّ بِهِ وَلَا يُسْتَشْهَدُ بِهِ وَلَا يَصْلُحُ لِلِاعْتِبَارِ انْتَهَى كَلَامُ ا بنُ الْهُمَامِ قُلْت: فَأَثَرُ عَلِيٍّ هَذَا لَا يُحْتَجُّ بِهِ وَلَا يُسْتَشْهَدُ بِهِ وَلَا يَصْلُحُ لِلِاعْتِبَارِ فَإِنَّ فِي سَنَدِهِ حَمَّادَ بْنَ شُعَيْبٍ وَقَالَ الْبُخَارِيُّ فِيهِ نَظَرٌ ) (تحفۃ الاحوذی صفحہ نمبر75جلد نمبر2)
”شیخ ابن ہمام تحریر میں فرماتےہیں”جب امام بخاری کسی راوی کے متعلق یہ فرمادیں کہ اس میں نظرہے تو اس(راوی)کی حدیث قابل احتجاج واستشہاد نہیں اور نہ ہی قابل اعتبار امام ابن ہمام کا کلام ختم ہوا میں کہتا ہوں تو(اس بنا پر)حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ(مذکورہ بالا) اثر قابل اجتہاد واستشہاد نہیں اور نہ ہی یہ قابل اعتبار ہے۔ کیونکہ اس کی سند میں حماد بن شعیب(راوی)ہے جس کہ متعلق امام بخاری فرما چکے ہیں کہ اس میں نظرہے۔ “
تو بیس رکعت نماز تراویح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی سنت نہ ہوئیں۔ مذکورہ دلائل سےآپ کو معلوم ہو گیا ہے کہ بیس رکعت نماز تراویح خلفاء راشدین میں سےکسی کی بھی
|