اب قاضی صاحب ہی بتائیں گے کہ حضرت سائب بن یزید کی روایت میں علي عهد عثمان وعلي مثله کااضافہ کرنا مذہب کی پچ میں چپر لگانا نہیں تو اور کیا ہے؟
ناظرین! میرا اس وقت یہ موضوع نہیں۔ ورنہ خوب نقاب کشائی کرتا۔ کیونکہ اہل رائے حضرات کی حدیث کے ساتھ نارواسلوک کی داستان بہت طویل ہے۔ معلوم ہوا کہ بیس رکعت نماز وتر تراویح خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنت نہیں ہے۔
بیس رکعت نماز تراویح سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سنت بھی نہیں:
بیس رکعت نماز تراویح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں اہل رائے نےبہت کوشش کی کہ کسی نہ کسی طریق سے یہ خلفاء راشدین کی سنت بن سکے۔ لیکن ناکام رہے۔ کہ بیس رکعت نماز تراویح کو سیدنا حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنت کہیں۔ سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنت بھی ثابت نہ کرسکے۔ اسی طرح سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنت بھی قرارنہ دے سکے۔ لیکن ابھی ان کے تجسس کی حس بڑھ رہی ہے۔ اور یہی کوشش ہے کہ کسی طریقہ سے ہم اسے خلیفہ رابع سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنت ہی کہہ سکیں۔ لیکن ان بے چاروں پر کہاں تک ترس کھایا جائے۔ یہ جن آثار کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیس رکعت نماز تراویح ہونے پر پیش کرتے ہیں وہ سب کے سب، ضعیف ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی قابل نہیں ہے۔ ویسے وہ بھی آپ ملاحظہ فرمالیں۔
پہلا اثر:
(عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَمَرَ رَجُلًا أَنْ يُصَلِّيَ، بِالنَّاسِ خَمْسَ تَرْوِيحَاتٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَفِي هَذَا الْإِسْنَادِ ضَعْفٌ) (سنن کبریٰ صفحہ نمبر197 جلد نمبر20)
”ابو الحسناء سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو پانچ وترو یحے بیس رکعت پڑھانے کا حکم دیا۔ اور اس سند میں ضعف ہے۔ “
1۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے بذات خود ہی اس مذکورہ بالا اثر کو نقل کرنے کے بعد فرمایا:
|