Maktaba Wahhabi

248 - 896
”اور یزید بن رومان کی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات نہیں۔ “ 3۔ قاضی صاحب کے بزرگ محترم چچا جناب قاضی شمس الدین صاحب مدظلہ العالیٰ فرماتے ہیں: ”ہم یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ روایت مرسل ہے۔ “(القول الصحیح صفحہ نمبر33) آپ نے پڑھ لیا کہ یزید بن رومان کی روایت کو جناب قاضی صاحب کے بزرگ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ علامہ زیلعی اور ان کے محترم چچا جناب قاضی شمس الدین صاحب بھی مرسل ومنقطع قراردے چکے ہیں۔ اب قاضی صاحب کی بھی سُن لیں۔ وہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ایک سوال کرتے ہیں۔ ”یہ روایت مرسل ہے؟ “ پھر خود اس کا جواب دیتے ہیں۔ ”ہرگز نہیں۔ “ اب ایک طرف قاضی صاحب ہیں اور دوسری طرف اُن کے بزرگ جن میں ان کے محترم چچا بھی ہیں۔ اس تنازعہ میں دونوں فریق میں ایک ایک قاضی موجود ہے۔ لہٰذا فیصلہ تو جلد ہی ہوجانا چاہیے۔ دیکھتے ہیں کس فریق کے قاضی اپنے نام کی لاج رکھتے ہیں۔ دوسرا جواب: یزید بن رومان کی روایت میں جو مسئلہ بیان ہوا وہ صرف اس قدر ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت پڑھتے۔ اس روایت میں یہ قطعاً مذکور نہیں ہے کہ وہ لوگ بیس رکعت حضرت عمر کےحکم سے پڑھتے تھے۔ نہ ہی اس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیس رکعت پڑھنے اور پڑھانے کا ذکر ہے۔ تو اس روایت سے بیس رکعت کو حضرت عمر کی سنت ہونا ثابت کرناقطعاً غلط ہے اور باطل ہے۔ باوجود یہ کہ یہ روایت بھی منقطع ہے پھر بھی بعض الناس یہ اور اس قسم کی دوسری روایات کےذریعہ رات دن لوگوں کو دھوکہ دینے میں مصروف ہیں۔ ان کو یہی کہنا پڑ ے گا ؎ کئے لاکھوں ستم اس پیار میں بھی یہی کہنا پڑے گا خدانخواستہ اگر خشمگیں ہوتے تو کیا کرتے!
Flag Counter