کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں لوگوں کو گیارہ رکعت نماز پڑھائیں۔ “
اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے۔ کیونکہ قاضی صاحب کے ہاں مؤطاامام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی سب احادیث صحیح ہیں۔ نیز قاضی صاحب کے بزرگ علامہ شوق صاحب نیموی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
(وَرَوَاهُ أَيْضًا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ النّيمَوِيُّ فِي آثَارِ السُّنَنِ إِسْنَادُهُ صَحِيْح)
(تحفہ الاحوذی صفحہ نمبر74جلد نمبر22)
”اور اس حدیث کو سعید بن منصور اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے بھی روایت کیا ہے۔ علامہ شوق صاحب نیموی نے آثار السنن میں فرمایا اس کی سند صحیح ہے۔ “
سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گیارہ کا حکم پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی صلوٰۃ تراویح سے ہی اخذ کیا تھا۔ شارح مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ علامہ باجی فرماتے ہیں:۔
(قال الباجي: لعل عمر أخذ ذلك من صلاة النبي صلى اللّٰه عليه وسلم ففي حديث عائشة أنها سئلت عن صلاته في رمضان؟ فقالت: ما كان يزيد في رمضان ولا في غيره عن إحدى عشرة ركعة) (زرقانی صفحہ نمبر238 جلد نمبر1)
”علامہ باجی فرماتے ہیں شاید سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ (گیارہ رکعت کا حکم) پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی صلوٰۃ تراویح سے اخذکیا کیونکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث میں ہے کہ ان سے آپ کی رمضان کی نماز پوچھی گئی تو اُنہوں نے فرمایا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان و غیر رمضان میں گیارہ رکعت پر اضافہ نہیں فرمایا کرتے تھے۔ “
علامہ باجی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تراویح کا ذکر بھی ہے۔ اسی لیے حافظ ابن حجر
|