بعد خود ہی ایک سوال کرتے ہیں۔ ”یہ حدیث ضعیف ہے“ خود ہی اس کا جواب دیتے ہیں”درست ہے۔ لیکن ہم اسے سند کےطور پرپیش نہیں کرتے“ پمفلٹ صفحہ نمبر 46 قاضی صاحب اقرار فرمارہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ضعیف ہے۔ اورہم اسے بطورسند پیش نہیں کرتے۔ اور اس کےعلاوہ اور کوئی حدیث نہیں جس سے بیس رکعت کی سنت ثابت کی جاسکتی ہو۔ تو بیس رکعت تراویح پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہ ہوئی۔ البتہ تین مرفوع اور قابل حجت احادیث سے ثابت ہے کہ آٹھ رکعات نماز تراویح پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے بیس رکعت کوسنت نبویہ سمجھنا صریحاً غلطی ہے۔ اگلےباب میں یہ ذکر آرہا ہے کہ بیس رکعت نماز تراویح خلفاء راشدین کی سنت بھی نہیں ہے۔ آٹھ رکعت نماز تراویح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اسے ایک دفعہ پھردیکھئے۔
1۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی فعلی مرفوع تصریحی اور باتفاق محدثین صحیح لذاتہ حدیث کہ” پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم رمضان وغیر رمضان میں گیارہ رکعت پر اضافہ نہیں فرماتے تھے۔
2۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فعلی تصریحی صحیح اور باتفاق محدثین قابل حجت حدیث کہ” پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رمضان المبارک میں آٹھ رکعت نماز پڑھائی۔
3۔ اقرء القراء امام تراویح حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریری مرفوع تصریحی اورقابل حجت حدیث کہ“انہوں نے رمضان میں ایک دن پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ میں نے آج رات اپنے گھرکی عورتوں کو آٹھ رکعت نماز پڑھائی اورآپ نے سکوت فرمایا۔ “
اب کیاکہنے قاضی صاحب کے اور ان کے حواریوں کے کہ وہ آ ٹھ رکعت نماز تراویح کے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنے ٹھوس، مضبوط اور واضح دلائل ہونے کے باوجود یہ شور وغوغا مچائے ہوئے ہیں کہ جی آٹھ کامسئلہ تو آج سے 96 برس پہلے شروع
|