علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کاکلام بھی اس بات پر دلالت کررہا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت پر اضافہ نہیں فرمایا کرتے تھے۔ اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تراویح کی رکعات پر استدلال درست ہے۔ اب قاضی صاحب علامہ قسطلانی شافعی کی بجائے اپنے ہی بزرگ علامہ بدر الدین عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کی بات تسلیم کرلیں۔ اس طرح انہیں اغیار کی تقلید سے بھی نجات حاصل ہوجائے گی۔
5۔ (وأما ما روى ابن أبي شيبة في مصنفه والطبراني والبيهقي من حديث ابن عباس أنه عليه الصلاة والسلام كان يصلي في رمضان عشرين ركعة سوى الوتر، فضعيف مع مخالفته للصحيح) (حاشیہ بخاری صفحہ نمبر 154 جلد نمبر 1 بحوالہ ابن ہمام)
”اور جو ابن ابی شیبہ اور طبرانی اور بیہقی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں وتر کے ماسوا بیس رکعت نماز پڑھتے، تو وہ ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ صحیح حدیث کے مخالف بھی ہے۔ “
صحیح حدیث سےمرادحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث ہے کہ”پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم رمضان وغیر رمضان میں گیارہ رکعت پر اضافہ نہیں فرمایا کرتے تھے“ تو ابن ہمام ایسے کٹرحنفی کےنزدیک بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صلوٰۃ تراویح پر استدلال درست ہے۔ لیکن قاضی صاحب یہاں پر بھی اپنے بزرگوں کی پرواہ نہیں کرتے اور بضد ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے تراویح پر استدلال درست نہیں۔ مؤدبانہ گزارش ہے کہ امام ابن ھمام رحمۃ اللہ علیہ کی بات تسلیم کرلیں۔ تاکہ دوسروں کی تقلیدکی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔
|