اسے تو صحاح ستہ میں شامل نہیں کیاجاتا۔
3۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے شبیہ حالات حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنھم سے بڑھ کرجانتی تھیں۔ اس لیے رات کے مسائل میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی بات دوسرے صحابہ سے قوی ہے۔
ایک اور بات
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے پتہ چلا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث سے تراویح پر استدلال درست ہے ورنہ وہ اسے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کے معارض قرارنہ دیتے“۔ (فتدبر)
3۔ نیز علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو ضعیف فرماتے ہیں:
(وَاَمَّا عَدَدُ مَا صَليّٰ فَفِيْ حَدِيْثِ ضَعِيْفٍ عنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّه صَلّٰي عِشْرِيْنَ رَكْعَةً وَالْوِتْرُ اَخْرَجَهُ اِبنُ اَبِيْ شَيْبَةَ وَرَوَي اْبنُ حِبَّانَ عَنْ جَابِرٍ اَنَّه صَلّٰي بِهُمْ ثَمَانَ رَكْعَاتٍ ثُمَّ اَوْتَرَ وَهٰذَا اَصَحُّ) (زرقانی صفحہ نمبر 2334 جلد نمبر1)
”اورآپ کی نماز کا عددتو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک ضعیف حدیث میں ہے کہ آپ نے بیس رکعت نماز پڑھی اوروتر اس کو ابن شیبہ نے روایت کیا اور ابن حبان نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیاہے کہ آپ نے انہیں آٹھ رکعت نماز پڑھائی پھروتر اداکیے اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث صحیح ترین ہے“۔
4۔ قاضی صاحب کے بزرگ علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ نےحضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث کو ضعیف ومنکر قرار دیاہے، وہ فرماتے ہیں:۔
قوله: «ما كان يزيد في رمضان.. )) إلى آخره. فإن قلت: روى ابن أبي
|