تو عدد رکعات سے قطع نظر احناف نفس تراویح کے مسنون ہونے میں اختلاف فرما رہے ہیں۔ تو غور کیجئے وہ بیس رکعت کے مسنون ہونے میں کیسے متفق ہو سکتے ہیں۔ یہ تو قاضی صاحب اور ان کے بزرگوں کے خیالات تھے۔ لیکن جب ہم بیس رکعت نماز تراویح کے مسنون ہونے پر دلائل کی روشنی میں غور و فکر کرتے ہیں۔ تو پتہ چلتا ہے کہ بیس رکعت نماز تراویح سنت نہیں ہے۔ فریق ثانی کی طرف سے بیس رکعت نماز تراویح کے مسنون ہونے پر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صرف ایک ہی حدیث پیش کی جاتی ہے۔ جو سخت ضعیف و منکر ہونے کے باعث قابل احتجاج نہیں ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی حدیث نہیں جو بیس رکعت پر دیوبندیوں کا سہارا بن سکے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت اور اس کا ضعف بھی ملاحظہ فرمائیے لیکن فریق ثانی کو پھر یہی کہنا پڑے گا۔
تمام عمر سہاروں پہ آس رہتی ہے
تمام عمر سہارے فریب دیتے ہیں
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کا ضعف:
عن ابن عباس رضي اللّٰه عنهما ( أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً فِيْ غَيْرِ جَمَاعَةٍ وَالْوِتْرَ تَفَرَّدَ بِهٖ اَبُوْ شَيْبَةَ اِبْرَاهِيْمُ بْنُ عُثْمَانَ وَهُوَضَعِيْفُ ) (سنن کبریٰ للبیہقی و مصنف ابن ابی شیبۃ)
”حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان میں بغیر جماعت بیس رکعت اور وتر پڑھتے اس حدیث کو روایت کرنے میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان منفرد ہے اور وہ ضعیف ہے۔ “
1۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی متذکرہ بالا حدیث کو بیان کرنے کے بعد بذات خود ہی اسے غریب و ضعیف قراردیا۔ ان کے لفظ آپ پڑھ چکے ہیں۔ تَفَرَّدَ بِهٖ اَبُوْ شَيْبَةَ اِبْرَاهِيْمُ بْنُ عُثْمَانَ وَهُوَضَعِيْفُ کہ ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان اس
|