Maktaba Wahhabi

232 - 896
نیز محشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (اِنَّ جُمُهْورَ الْاُصُوْلِّيْينَ يَعْرِفُوْنَ السُّنَّةَ بِمَا وَاظَبَ عَلَيْهِ رَسُول اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَسَبُ ) (حاشیہ ہدایہ صفحہ نمبر151جلد نمبر1) ”کہ جمہور اہل اصول سنت کی صرف یہی تعریف کرتے ہیں سنت وہ امر ہے جس پر پیغمبر نے مواظبت و مداوت فرمائی۔ “ تو جمہور اہل اصول سنت کا یہی مفہوم بیان کرتے ہیں۔ وہ امر ہے جس پر پیغمبر نے مواظبت و مداوت فرمائی ہو۔ اب غور طلب امر یہ ہے کہ بیس رکعت نماز تراویح سنت کے مذکورہ بالا معنی کی روشنی میں احناف کے ہاں سنت ہے یا نہیں۔ بیس رکعت نماز تراویح سنت ہونے میں قاضی صاحب کے بیانات تو انتہائی متضاد ہیں۔ کیونکہ جناب حاشیہ پمفلٹ صفحہ نمبر19 پر فرماتے ہیں”رکعات کا عدد کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں“جونہی قاضی صاحب سرعت قلم سے صفحہ نمبر45پر پہنچتے ہیں تو پہلی بات ذہن سے نکال کر یوں مخاطب ہوئے ہیں”اتباع سنت تو یہی ہے کہ بیس ہی کو سنت سمجھ کر ان پر عمل کیا جائے۔ خیر قاضی صاحب کی متضاد بیانیاں تو چھٹے باب میں وضاحت سے بیان کی جائیں گی لیکن یہاں پر غور طلب امر یہ ہے کہ قاضی صاحب کے بزرگوں کے مابین آج تک یہ فیصلہ ہی نہیں ہو سکا کہ آیاتراویح سنت بھی ہیں۔ ایک گروہ کا نظریہ ہے کہ بیس رکعت نماز تراویح سنت نہیں مستحب ہے۔ دوسرے گروہ کا عندیہ ہے کہ بیس رکعت نماز تراویح ہونے میں بھی دو روايتيں ہیں۔ چنانچہ محشی شرح وقایہ فرماتے ہیں: )اعلم أنه اختلف في أنّ التراويح سنة مؤكدة أو مستحب فروي عن أبي حنيفة الاستحباب، وروى عنه الاستنان ((حاشیہ شرح وقایہ صفحہ نمبر207جلد نمبر1)”جان لو اس بات میں اختلاف ہے کہ تراویح سنت موکدہ ہیں یا مستحب پس امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے مستحب ہو نا بھی مروی ہے اور سنت ہونا بھی۔ “
Flag Counter