Maktaba Wahhabi

229 - 896
ذَاكَ يَا أُبَيُّ؟»، قَالَ: نِسْوَةٌ فِي دَارِي، قُلْنَ: إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَصَلي بِصَلَاتِكَ، قَالَ: فَصَلَّيْتُ بِهِنَّ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، وَ أَوْتَرْتُ، قَالَ:وَكَانَت سنۃَالرِّضَا وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا) ”حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبداللہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا اےپیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم آج رات مجھ سے ایک کام ہو گیا ہے۔ یعنی رمضان میں آپ نے پوچھا اے ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ کام کیا ہے۔ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا میرے گھر کی عورتوں نے کہا۔ ہم(زبانی) قرآن نہیں پڑھ سکتیں۔ ہم بھی تیری امامت میں نماز پڑھ لیں؟تومیں نے انہیں آٹھ رکعت نماز پڑھادی اور وتر اداکئےتو یہ سنت رضا ہوئی اور آپ نے کچھ نہ فرمایا۔ “ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرمارہے ہیں کہ رمضان المبارک میں ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ میں نے آج رات اپنے گھر کی عورتوں کو آٹھ رکعت نماز پڑھائی۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سکوت فرمایا اور آپ ابتدائے باب میں پڑھ چکے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امتی کے عمل کا علم ہو جائے پھر آپ اس پر سکوت فرمائیں۔ تو وہ عمل بھی سنت کہلاتا ہے تو مذکورہ بالا تقریری مرفوع تصریحی حدیث سے بھی آٹھ رکعت باجماعت نماز تراویح کا سنت ہونا ثابت ہوا۔ یہ حدیث قابل حجت ہے۔ ضعیف نہیں۔ چنانچہ صاحب مجمع الزوائدفرماتے ہیں: قال الھیشمی فی مجمع الزوائد أسناده حسن ہیثمی مجمع الزوائد میں فرماتے ہیں اس کی سند حسن ہے۔ (تحفة الاحوذي صفحہ نمبر74جلد نمبر30) پس تین مرفوع اور قابل حجت احادیث سے ثابت ہوا کہ آٹھ رکعت نماز تراویح ہی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سنیہ ہے۔ دوبارہ پھر ملاحظہ کیجئے۔ 1۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی فعلی مرفوع تصریحی اور باتفاق محدثین صحيح لذاته حدیث کہ”پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم رمضان وغیررمضان میں گیارہ رکعت پر
Flag Counter