قطعاً صحیح ہے۔
3۔ خاتمہ الحفاظ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث کو فتح الباری میں نقل کرنے کے بعد کسی قسم کی جرح و قدح نہیں کی۔ جواس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ حدیث ضرور بالضرور ان کے ہاں مقبول ہے۔ کیونکہ وہ فتح الباری کے مقدمہ میں اس چیز کی صراحت فرماچکے ہیں کہ اس کتاب میں وہ حدیث درج کروں گاجو مقبول ہو ورنہ اس پر جرح کروں گا۔
4۔ علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو عمدہ القاری میں نقل کر کے سکوت فرمایاہے۔ جو اس امر کی واضح دلیل ہے کہ وہ حدیث ان کے ہاں بھی لامحالہ مقبول ہے۔
5۔ علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ شرح مؤطا امام مالک میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔ وهذا اصح اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث صحیح ترین حدیث ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فعلی مرفوع تصریحی اور صحیح ترین دوحدیثوں سے ثابت ہوا کہ آٹھ رکعت نماز تراویح ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعت نماز تراویح کی ہی جماعت کرائی۔ باقی بیس رکعت تراویح نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی اور نہ ہی جماعت کرائی۔ تو بیس رکعت تراویح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہ ہوئی۔ غورفرمائیے کہ اب بھی قاضی صاحب کو یہ کہنےکی کوئی گنجائش ہے۔ کہ”رکعات کا عددکسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں“لیکن لا يجب علينا قبوله ایسا نظریہ رکھنےوالوں کوکون سمجھائے۔ ہمارا تو نظریہ یہ ہے ؎
پس حدیث مصطفیٰ برجان مسلم داشتئن
تیسری دلیل حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی حدیث:
(عَن جَابِرِ بنِ عَبدِ اللّٰهِ قَالَ جَاءَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ يَعْنِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: «وَمَا
|