لازم تو نہیں آتا کہ اس حدیث میں رمضان کا ذکر بھی نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان کی راتوں کی نفلی نماز اور رمضان کے علاوہ دیگر راتوں کی نفلی نماز کا ذکر ہے۔ کہ وہ گیارہ رکعت سے زائد نہ تھی۔ اب نہ معلوم قاضی صاحب کواپنے مفاد کی اتنی کیوں فکرہے کہ اول الذکر نماز کو محض مفاد کے پیش نظر درخوراعتناء نہیں سمجھ رہے۔ یا پھر اس مصرع کا مصداق بننا چاہیں گے ؎
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
چوتھاجواب:
4۔ قاضی صاحب کےزعم کےمطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازتراویح بیس رکعت ہے۔ اور آپ کی رمضان المبارک میں صلوٰۃ تہجد گیارہ رکعت ہے۔ قاضی صاحب کے ہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان کی راتوں میں ادا کردہ کل نفلی نماز بیس جمع گیارہ اكتیس رکعت ہوئی۔ یہ بھی کیسا طرفہ ہوا۔ حالانکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان کی راتوں میں کل نفلی نماز گیارہ رکعت سے زائد نہ تھی۔ یہاں پر یہی کہنا پڑے گا ؎
ذارچشم بصیرت کھول کر دیکھو مسلمانو!
یہ اعجاز پیغمبر ہے حدیث خاتم المرسل
ناظریں آپ خود فیصلہ کیجئے کہ قاضی صاحب کے مقلد بننا چاہتے ہیں۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے بیان کو اپنانا چاہتے ہیں۔ اطمینان سے سوچنے پر مسئلہ خود بخود حل ہوجائے گا۔
پانچواں جواب:
5۔ یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازتراویح پوچھی تھی۔ ورنہ انہیں”رمضان“کو مخصوص کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ
|