برادران من!غور کیجئے کہ ایک طرف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا متذکرہ بالا بیان کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں بھی گیارہ رکعت پر اضافہ نہیں فرمایا کرتے تھے۔ دوسری طرف دیوبندی مقلدین کا تجزیہ یہ ہے کہ دعویٰ یوں ہوتاہے کہ بیس رکعت نماز تراویح ہی نبی علیہ السلام کی سنت ہے اور اقراریوں بھی فرما لیتے ہیں۔ کہ”رکعات کا عدد کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ “اب نہ معلوم اقرارکے بعد بیس رکعت نماز تراویح سنت نبویہ کی رٹ کیوں لگائی جاتی ہے”اقرار“کو پس پشت ڈال کردعویٰ کرنا ان لوگوں کاشعاربنا ہوا ہے۔
رحمت حق نے لیا ڈھانپ صدادے دے کر
کس ادا سے کیا اقرار گنہگاروں نے!
یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کو اپنے دعویٰ کو سچ کرنے کی خاطر قرآن وحدیث کے واضح مفہوم میں تحریف کرنا پڑتی ہے۔ قاضی صاحب کو بھی قرآن و حدیث پر کچھ گلا ہے کہ وہ اس قدر واضح کیوں ہیں۔ چنانچہ ایڑی چوٹی کے زورسے یہی کوشش ہوتی ہے کہ قرآن وسنت کسی طرح ان کے دعویٰ کی تائید کردیں۔ قرآن و سنت پر جب اعتراض ہوتا ہے تو گویائی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اب قاضی صاحب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث میں شکایات کا یوں اظہار فرماتے ہیں۔ اُن کا اعتراض درج کرنے سے پیشترسوچتا ہوں ؎
مشفق لکھو، شفیق لکھوں، دلربالکھوں؟
حیرت میں ہوں کہ آپ کے القاب کیا لکھوں
قاضی صاحب مدظلہ العالی کا اعتراض:
فرماتے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث میں تراویح کا ذکر نہیں ہوا۔ علامہ قسطلانی شافعی فرماتے ہیں: ”حَمْلَه َأصْحَابُنَا عَلي الْوِتْر“ کہ حدیث عائشہ کو ہمارے اصحاب صلوٰۃ تہجد پر حمل کرتے ہیں۔ حدیث عام ہے۔ اوردعویٰ خاص۔
|