کیجئے کہ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رات کی نماز پوچھی تھی۔ مراد نفلی نماز تھی۔ اور رمضان المبارک کے مہینہ کی نمازتھی۔ اب آپ یقیناً اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوال کردہ نماز صلوٰۃ التراویح ہی تھی۔ البتہ اب قاضی صاحب ایسے فاضل بزرگ سے پوچھنا ہوگا کہ وہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں رات کی نفلی نماز پوچھی تھی۔ اور ساتھ ساتھ یہ رٹ بھی لگاتےہیں کہ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوال کردہ نماز تراویح نہیں۔ کوئی اور نماز مرادہے تعجب بالائے تعجب اس لیے ہے کہ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوال کردہ نماز تہجد کہہ رہے ہیں۔ حالانکہ سوال میں رمضان کا لفظ آچکا ہے۔ اور تہجد صرف رمضان سے مخصوص نہیں ؎
ایں چہ ابو العجبی است
ان کا معاملہ وہی ہے ؎
منہ میں جو آتا ہے فی الفور کہے دیتے ہیں
بات کہنے کی نہیں اور کہے دیتے ہیں
آپ نے جائزہ لے لیا کہ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سوال صرف نماز تراویح کے متعلق ہی تھا۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے جواب سے سائل کا سوال حل ہو گیا؟تو قاضی صاحب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے جواب کے الفاظ ہیں۔
(مَا كَانَ رَسولُ اللّٰهِ صلَّى اللّٰهُ عليه وسلَّم يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً.........) الخ
”پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وسلم رمضان و غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد کچھ نہیں پڑھا کرتے تھے“۔ غور کیجئے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے سائل کو دو باتیں بتلائیں:
1۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد کچھ نہیں پڑھا کرتے تھے۔
|