اوّلاً دیکھئے جناب! آپ وتر کا معنی صلوٰۃ تہجد بتلارہے ہیں۔ حالانکہ وتر آپ کے ہاں صرف تین ہیں۔ اورحضرت عائشہ صدیقہ کی حدیث میں گیارہ کاذکر ہے۔ جناب آپ کے ہاں گیارہ رکعت وتر بننے کی گنجائش ہے؟
ثانیاً۔ وترحنفی مسلک کے مطابق تو واجب ہیں۔ بتائیے یہ گیارہ رکعت بھی آپ واجب ہی سمجھتے ہیں۔
ثالثاً۔ کیا وتر اور تہجد آپ کے ہاں یعنی حنفی مذہب میں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں؟ اگر نہیں تو آپ کاترجمہ کیونکر درست ہوسکتا ہے؟
رابعاً۔ اگر فقط وتر کا اطلاق صلوٰۃ تہجد پر ہوسکتاہے تو صلوٰۃ تراویح پر لفظ وتر کے مطلق ہونے سے کون سا مانع ہے؟ ہوسکتا ہے جملہ” أصْحَابُنَا عَلي الْوِتْر“ کا ترجمہ یہ ہو کہ اس حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کو ہمارے اصحاب صلوٰۃ تراویح پر عمل کرتے ہیں۔ کیونکہ امام محمد، ابن ہمام، ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ، انور شاہ کشمیری رحمہم اللہ بھی تو آخر اصحابنا سے ہی شمار ہیں۔ جوگیارہ رکعت کو سنت نبوی قراردیتے ہیں۔ یاپھر آپ ہی فرمادیجئے کہ یہ حضرات اصحابناسے خارج ہیں۔ امکان ہے کہ آپ کے ہاں ملک بشیر احمد صاحب، ماسٹر نصر اللہ صاحب، مولوی عباس صاحب اصحابنا میں سرفہرست ہوں۔ کیونکہ یہ بیچارے بھی آخر حنفی ہی ہیں نا۔ کوئی بات نہیں۔ اچھامولانا بتائیے؟کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ، ابن ھمام رحمۃ اللہ علیہ، ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ، علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ، انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ پراصحابنا کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ تو بتلائیے اس کا اطلاق کن کن رجال پر ہے؟ پھر آپ فرمارہے ہیں“ اب جناب یہ لفظ اصحاب جمع ہے۔ (واقعی لفظ اصحاب کی جمعیت آپ ہی نے بتائی ہے بھلا اصحاب کی جمیعت کس کو معلوم تھی؟یہی تو علمی معیار ہے) اور آپ کی انفرادی رائے پیش کررہے ہیں دیکھئے جناب یہ کوئی انفرادی رائے ہے۔
3۔ باقی قاضی صاحب آپ نے میرے مسلک پر تو اعتراض کرلیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کو تمام عمریہ بھی پتہ نہ چل سکا کہ ہمارے نزدیک تو تقلید
|