Maktaba Wahhabi

202 - 896
میں ذکر فرمایا ہے۔ تو جناب یوں گویا ہوں!” کہ اس حدیث کاقیام رمضان کے باب میں مذکور ہونا اس کے صلوٰۃ تراویح کےبارےمیں ہونے پردلالت نہیں کرتا۔ نیز گفتگو صلوٰۃتراویح کے بارےمیں ہے۔ نہ قیام رمضان کےبارے میں۔ “ تو جناب بتائیے آپ کی پیش کردہ مجہول السندموہوم حدیث کاقیام رمضان کے باب میں مذکور ہونا“جب کہ صلوٰۃ تراویح کا لفظ بھی اس میں موجود نہیں“ کیونکر تراویح پر دلالت کرسکتا ہے؟ کیا جب اپنی باری آئے تو گفتگو کہیں قیام رمضان کے بارےمیں تو نہیں ہوجاتی۔ خیر وہ اپنی بات ہے۔ ٹھیک! علمی معیار پر بہت خوب۔ دراصل بات یہ ہے کہ قاضی صاحب کو اپنی عمارت چوراہے پر گرتی نظر آرہی ہے۔ اس لیے انہیں ایسے تکلّفات برداشت کرنے میں بھی باک نہیں۔ جناب میری مانیے اور اپنے بزرگ محترم قاضی شمس الدین صاحب مدظلہ کی طرح فرمادیجئے کہ” آٹھ رکعت سنت ہیں“تاکہ ان تکلفات سے تو کم از کم آپ کو نجات مل جائے۔ اچھا! اگر واقعی آپ کا یہی نظریہ ہے کہ گفتگو صلوٰۃ تراویح کے بارے میں ہے نہ کہ قیام رمضان کے بارےمیں تو بتائیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام رمضان کس وقت کیا؟اور تراویح کس وقت ادا فرمائیں؟ اور رمضان المبارک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تہجد کس وقت پڑھی؟پھر تینوں کی کتنی کتنی رکعتیں تھیں؟ اگر آپ میرا یہ سوال حل کردیں تو میں آپ کا ازحد ممنون ہوں گا۔ نیز ان تینوں کی باہم دیگر نسبت بھی تحریرفرمادیں۔ تاکہ مسئلہ اچھی طرح واضح ہوجائے۔ بے شک آپ اسےفقیہانہ اندازمیں پیش فرمائیں۔ کوئی مضائقہ نہیں۔ 2۔ آپ نے ارشاد الساری شرح صحیح البخاری سے علامہ قسطلانی کا قول نقل فرمایا ہے۔ جسے شاید آپ نکتہ دقیقہ عجیبہ سمجھے بیٹھے ہیں وہ یہ کہ”حَمْلَه َأصْحَابُنَا عَلي الْوِتْر“ کہ اس حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کو ہمارے اصحاب صلوٰۃ تہجد پر عمل کرتے ہیں۔۔ ۔ الخ
Flag Counter