اقوال کا جواب آپ نے اقوال[1]سے بھی سُن لیا۔ اور یہ بھی واضح ہوگیا کہ آپ کے لیے سند اقوال رجال نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ یہ آپ کے مسلک کے خلاف ہے۔ نیز علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہمارے اصحاب صلوٰۃ تہجد پر عمل کرتے ہیں۔ اب جناب یہ لفظ اصحاب جمع ہے اور صرف بعض کی انفرادی رائے پیش کر رہے ہیں۔ پھر علامہ ابن نجیم حنفی کی آپ نے پوری عبارت نقل کرنے سے گریز کیا ہے۔ ورنہ آپ کے استدلال کی قلعی کُھل جاتی۔ وہ اس کو صرف علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ کی انفرادی رائے قراردے رہے ہیں۔ اپنا نکتہ نظر نہیں پیش کرتے۔ اگر جراءت ہو تو پوری عبارت نقل کریں۔ پھر علامہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ کی قول ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ پر تنقید بھی آپ کی نظر سے اوجھل ہو گئی۔
وہ بھی اسی بحرالرائق کے حاشیے پر ہےجس سے آپ علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ کی رائے نقل فرما رہے ہیں۔ لیکن کیا کریں کوئی رسالہ سامنے رکھ کر تحقیق کے درپے ہو گئے جس کانام بھی خود آپ ہی نے تحریر کیا تھا اور اصل کتاب کی طرف مراجعت بھی نہ کی۔ اب آپ یہ شعر اپنے پرچسپاں کریں۔ تبغیر یسیر ؎
نہ رکھ دلیل کی کچھ بھی سند پھر اس پر اڑتےہو
عجب دانا مجتہد ہو کہ بے ہتھیار لڑتے ہو
یا پھر یوں ؎
|