رکعت ہونا نصاً ثابت ہوتا ہے پھر گفتگو صلوٰۃ تراویح کے بارے میں ہے نہ کہ قیام ِ[1]رمضان کے بارے میں۔ علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ اور ملاعلی رحمۃ اللہ علیہ قاری کا نام لینا آپ کو زیبا نہیں۔ آپ پر لازم ہے کہ”اس حدیث میں گیارہ رکعت تراویح بطور نص وارد ہے۔ “کوثابت کریں۔ اور اثبات دعویٰ میں کسی فقیہ کا قول پیش کرنا کیونکر درست ہے۔ آپ تو غیر مقلد ہیں۔ آپ کی پیش کردہ دلیل پر میں ایک قرینہ ذکر کر کے اعتراض کر رہا ہوں۔ اب آپ اپنے اجتہادی رنگ میں جواب دیں نہ کہ اقوال رجال کی طرف رجوع کریں۔ جس رقعہ میں آپ”لَا تُقَلِّدُوْا اَئِمَّتَكُمْ“کاراگ الاپ رہے ہیں۔ اسی میں اقوال رجال سے اپنا دعویٰ ثابت کررہے ہیں۔ اب اسے قول و عمل کا تضاد نہ کہیں تو کیا کہیں۔ آپ کو ہرگزیہ حق نہیں پہنچتا کہ اقوال رجال سے اپنا دعویٰ ثابت کریں۔ ابھی تو یہ پہلا اعتراض ہے اور فقہاء کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ ع
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
پھر اگر تقلید پر مجبور ہو گئے تھے تو بجائےفقہاء احناف کی تقلید کرنے کے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ، امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ، امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ، وغیرہ محدثین کی تقلید کرتے۔ جو اس حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کو قیامِ[2]رمضان کے باب میں نہ ذکر کر کے اور صلوٰۃ تہجد وغیرہ سے متعلقہ ابواب میں ذکر کر کے سمجھا رہے ہیں کہ اس حدیث کا صلوٰۃ تراویح کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں۔ اس طرح کم ازکم فقہاء احناف[3] کی تقلید سے تو بچ بھی جاتے۔ بہر حال
|