مجھے علم ہوا ہے کہ آپ اپنے روزانہ درسوں میں اس قسم کی باتیں کہتے ہیں۔ کہ یہ لوگ دو چار کتابیں پڑھ لیتے ہیں۔ اور عالموں کے مقابلہ پر اتر آتے ہیں۔ افسوس کہ مولانا کچھ وسیع الظرف ہوتے اور اس رویہ کو قطعاًناپسند فرماتے۔ یا کسی علمی بحث و تمحیص میں الجھ کر مجھے کسی معیار پر آزماتے۔ اور اگر میں واقعی صحیح علمی معیار پر نہ اترتا۔ تو پھر کسی حد تک آپ اس رویہ میں حق بجانب ہو سکتے تھے۔ لیکن میں یہی سمجھتا ہوں کہ شاید یہ قرآنی درس میں کس جدید تفسیر کا ہی آغاز ہے۔ لیکن مولانا ایسی ہنگامہ آرائی اور دھمکیوں سے حق ہمیشہ اُجاگر ہوا کرتا ہے۔ یہاں پر میں یہ کہدوں تو بے جانہ ہوگا۔ ع
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
آپ کو آنے والے ان حالات سے آگاہی نہ تھی۔ ورنہ آپ اس سے پہلے رقعہ میں ”الجواب“کہہ کر نہ پکارتے۔ دراصل وہی بات نا۔ ع
خود آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
آپ نے اس سے پیشتر یہ بھی تحریر کیا تھا۔ کہ انہیں سامنے کردیں جو جواب کامسودہ تیار کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آپ کی اخلاقی گراوٹ کے علاوہ قلمی لغزش بھی ہے۔ آپ سوچیں کہ تحریر گفتگو میرے اور آپ کے مابین ہو رہی ہے۔ اللہ کا فضل ہے کہ مجھے کسی سے جوابات کا مسودہ تیار کروانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ نے کئی طریقوں سے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ میں اس کے بزرگوں کے ساتھ زبانی گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ تو مولانا بحمداللہ آپ دعوت دیجئے۔ میں ہر وقت زبانی گفتگو کے لیے تیار ہوں۔ اور جس موضوع پر چاہیں آپ اپنی علمی طاقت آزمائی کیجئے۔ میری دلیلیں حقائق پر مبنی ہیں۔ آپ جس وقت زبانی گفتگو کا شوق فرمائیں بندہ حاضر ہے۔ بندہ کو اُمید واثق ہے کہ یہ صرف راہ فرار اختیار کرنے کا طریقہ ہے۔ جس میں آپ کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ میرا تو تجربہ ہے۔
|