ان کے بزرگوں کی خلافت ہے۔ خیر سہ رکنی کمیٹی نے بھی جس دیانت کا اظہار کیا اس پربھی افسوس ہے۔ لیکن صد افسوس تو اس بات میں ہے کہ قاضی صاحب نے اپنے حواریوں کی باتیں اپنے آئمہ سے بھی زیادہ یقین کے ساتھ قبول کر لیں واقعی اس مقام پر قاضی صاحب کے حواریوں کو یہ کہا تھا کہ”جیسا قاضی صاحب مناسب سمجھیں گے میں ویسا ہی کرنے کو تیار ہوں“لیکن۔
جن تین حواریوں پر قاضی صاحب کو ہے ناز
حشر ان کا کاتب تقدیر کے دفتر میں ہے
کیا کہنے !آئمہ دین کے پجاریوں کی شان بھی دیکھئے۔ کہ اپنے پمفلٹ میں رقعہ نمبر(5)کی بھی سرخی جمادی اور حقیقت میں جو رقعہ نمبر(5) تھا اسے رقعہ نمبر(6)ظاہر کر رہے ہیں۔ اب نامعلوم یہ کس کی تقلید میں دیانت ٹھہرے گی۔
تراشے ہیں نئے اصنام تمہید نوکےآزرنے
خدائی میں بتوں کی لاج بھی تو رہ گئی آخر
6۔ حافظ عبدالمنان صاحب:
جناب قاضی صاحب !السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
احوال آنکہ۔ اس دفعہ تو مجھے انتظار کی بھی گھڑیاں دیکھنی پڑیں۔ پانچ چھ دن اسی انتظار میں رہا کہ آج جواب موصول ہو گا۔ لیکن جواب ندارد۔ بہت سوچا کہ آخرکس چیز نے قاضی صاحب کو خاموشی پر مجبور کردیا ہے۔ تاہم اس نتیجہ پر پہنچا کہ شاید مصلحتاً مزید تحقیق کی ضرورت ہوگی تب ہی تو جواب آنے میں اتنی دیر ہوئی۔ بہر حال اتنی دیر خاموش رہ کر تحقیق کے بعد اگر آپ صحیح نتیجہ پر پہنچ جائیں۔ تو میرے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کیا ہو سکتی ہے؟خدا آپ کو صحیح تحقیق سے آگاہ کرے۔ آمین۔ لیکن مولانا ایک بات جو مجھے یہاں پر کہنی ہے وہ یہ ہے۔
|