ہوا۔ ان کی زبانی اور بات بھی معلوم ہوئی کہ آپ کو میری تحریر کا جواب دینے کے لیے گوجرانوالہ کے چکر بھی لگانے پڑے۔ اور مشورہ اساتذہ کی بھی ضرورت محسوس ہوئی تو ایسا ہی کیوں نہیں کرتے کہ جب اپنے میں جواب کی تاب نہیں ہوتی تو انہیں سامنے کر دیں جو جواب کا مسودہ تیار کرتے ہیں۔ اب آپ کے اقرار روایت اور عمل سے آپ کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اب بات اس سے ہونی چاہیے جس پر آپ کو اور آپ کے حواریین کو اعتماد ہو۔ (عصمت اللہ عفی عنہ خطیب مسجد جامع قلعہ دیدار سنگھ)
4۔ حافظ عبدالمنان صاحب:
جناب قاضی صاحب !السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
آپ کا جواب موصول ہوا جو درحقیقت میرےتجربہ کا جواب نہیں تھا۔ بلکہ وہ آپ کے اخلاق عالیہ کا ایک نمونہ تھا۔ آپ اس میں رقمطراز ہیں کہ”توانہیں سامنے کر دیں جو جواب کا مسودہ تیار کرتے ہیں“ ہوسکتا ہے یہ الزام تراشی آپ کے ہاں دیانتداری کی کوئی خاص قسم ہو۔ میں سمجھتا تھا کہ قاضی صاحب دائرہ تہذیب میں رہیں گے۔ اب معلوم ہوا کہ آپ پر توگھبراہٹ بوکھلا ہٹ طاری ہوچکی ہے۔ اورآپ اصل مسئلہ کو چھوڑنا چاہتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ پراپنی تحریروں کی کمزوریاں بخوبی واضح ہوچکی ہیں۔ اور آپ کے بلند بانگ دعوے”کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانےمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بیس رکعت نماز پڑھا کرتے تھے، بالکل پست ہوچکے ہیں۔ وگرنہ کسی صحابی کا نام بتائیں کہ وہ بیس رکعت پڑھتے تھے؟حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی حدیث کا نبی علیہ السلام کے قیام رمضان میں نص ہونا آپ پر واضح ہوچکا ہے۔ تب ہی آپ اس کا جواب تک نہیں دیتے اچھا اب الزام تراشی میں پڑکر اصل مسئلہ کو الجھانے کی کوشش نہ کریں اوردیانت داری سے بتائیں کہ نبی علیہ السلام نےصلوٰۃ تراویح کتنی رکعت اداکی؟
اور خلفائے راشدین میں کون سے خلیفہ بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے؟ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے نبی علیہ السلام کی کونسی نمازپوچھی؟کیاحضرت
|