بَلْ كَانَ لاَ يَزِيْدُ(اَيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم)فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً ) ( بحواله مفاتيح)
جناب دیکھئے کہ حنفیت کے بڑے بڑےترجمان یعنی ابن ھمام، امام محمد ملا علی قاری رحمہم الباری حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے نبی علیہ السلام کی نماز تراویح کے گیارہ رکعت ہونے پر استدلال کر رہے ہیں۔ کیا ان کا یہ استدلال غلط ہے؟ یا نہیں غیر رمضان کے لفظ سے نسیان ہو گیا؟ یا پھر رمضان کا لفظ انہیں کہیں نظر نہیں آیا؟ کہ آپ کی طرح کہہ دیتے کہ یہ صلوٰۃ تراویح کے علاوہ کوئی اور نماز ہے۔ یا پھر وہ آپ سے کم عقل و کم فہم تھے؟ کہ آپ تو نکتہ دقیقہ سمجھ گئے البتہ امام محمد، ابن ھمام ملاعلی قاری رحمہم الباری کے ذہن میں یہ نکتہ نہ آسکا۔
فَوَا عَجَباً لَّك اَيُّهَا الْقَاضِيْ وَاسَفَا عَليْك اَيُّهَا الْحَنَفِيِّ
بہر کیف آپ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث نبی علیہ السلام کے قیام رمضان کی رکعات بیان کرنے میں نص صریح ہے۔ اگر آپ سے غلطی ہو گئی ہو تو کوئی بات نہیں ہر انسان خطا کار ہے۔ اگر آپ مان لیں تو آپ کی تقلید میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ میں آ پ کو تسلی دیتا ہوں کہ آپ یہ ماننے سے زمرہ مقلدین سے خارج نہیں ہوں گے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ حق تسلیم کرنے سے مجتہد نہیں بنیں گے۔
باقی سائب بن یزید سے اس مضمون (بیس رکعت) کے متعلق امام بیہقی نے دو مختلف سندوں سے دو روا يتيں بیان فرمائی ہیں۔ آپ بتائیں کہ آپ نے کون سی روایت پیش کی ہے اس کی سند مع الفاظ درج کیجئے۔ ویسے ہی بسند صحیح موجود ہے کہ دعوے کرنے چھوڑدیجئے۔ کیونکہ دعوی بلا دلیل غیر مسموع ہوتا ہے۔
خلاصہ:
آپ نے میری پہلی تحریر کا بالکل جواب نہیں دیا۔ نہ ہی نبی علیہ السلام کی
|