ہے۔ اب یہ دوسوال ہیں آپ ان کے جواب سے گریز کر کے اور دیگر باتوں کو چھیڑ کر بحث کو الجھائیں نہیں۔ ان کا جواب جب تک نہ ہو گا۔ بات آگے نہ چل سکے گی۔ والسلام
عبدہ المذنب عصمت اللہ عفی عنہ، قلعہ دیدار سنگھ
4۔ حافظ عبدالمنان صاحب:
جناب قاضی صاحب:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں: (عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰه عَنْهَا : كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ ... قَالَتْ : " مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعَ) الخ اس سے صاف و روزِ روشن کی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبی علیہ السلام کے قیام رمضان کے متعلق سوال کیا تھا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بھی ابو سلمہ کو نبی علیہ السلام کا قیام رمضان ہی بتلایا تھا۔ تب ہی ابو سلمہ رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے جواب میں خاموش رہے۔ وگرنہ وہ صرف کہتے کہ اُم المؤمنین!میں تو آپ سےقیام رمضان پوچھ رہا ہوں اور آپ مجھے کوئی اور نماز بتلا رہی ہیں؟ اچھا اب آپ جسارت کیجئے۔ اور تحریر فرما دیجئے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا جواب ابو سلمہ کے سوال کا جواب نہیں تھا اور اگر جواب ہو بھی تو ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کا سوال اسی سے حل نہ ہوا تھا۔ یا پھر ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کا سوال قیام رمضان کے متعلق نہ تھا۔ باسند تحریر فرمائیے۔ آؤ میں آ پ کو تمھارے گھر کی بات بتلاؤں بحرالرائق میں ابن نجیم حنفی بحوالہ فتح القدیر رقمطراز ہیں:(وقد ثبت أن ذلك كان إحدى عشرة ركعة الوتر كما قدّمناه من الصحيحين من حديث عائشة ) (بحواله مفاتيح باسرار التراويح)
اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ اپنے موطا میں حدیث کو باب قیام شہر رمضان کے تحت درج کرتے ہیں۔ اور ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقاۃ میں تراویح کی بحث فرماتے ہیں:
|