ہے کہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔ اب یہی صحیح ہے کہ بیس رکعت نمازتراویح ادا کی جائے۔ هذاما عندي واللّٰه اعلم بالصواب۔ (عصمت اللہ عفی عنہ)
2۔ حافظ عبدالمنان صاحب:
عن السائبِ بْنِ يزيد: ((أنَّ عُمَرَ أَمَرَ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وتَمِيمًا الدَّارِيَّ أن يَقُوما لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً))الخ
(رواہ مالک مشکوٰۃ جلد نمبرایک صفحہ نمبر 115)
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی آٹھ رکعت تراویح پڑھی جاتی تھی۔ مجھے سخت افسوس ہے کہ مولانا نے یزید بن رومان کی روایت سائب بن یزید کے ذمہ لگادی اور یزید بن رومان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فوت ہونے کے بعد پیداہوا۔ یزید بن رومان کی حدیث مردود منقطع ہے۔
برین عقل ودانش بیاید گریست
(عبدالمنان بن عبدالحق نور پور)
2۔ قاضی صاحب:
عزیز مکرم مولوی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ ایک کاغذ میرے پاس پہنچا ہے۔ جس پر آپ کے دستخط ہیں۔ اور ایسامعلوم ہوتا ہے کہ میری ایک تحریر کے جواب میں آپ نے اسے تحریر کیا ہے جس تحریر میں بندہ نے حضرت سائب بن یزید سے روایت بیس رکعت تراویح پیش کی تھی۔ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔ اور میں نے حوالہ دیا تھا۔ کہ روایت سنن الکبریٰ بیہقی میں موجود ہے۔ آپ کا خیال ہے کہ روایت سائب بن یزید سے نہیں بلکہ یزید بن رومان سے ہے۔ یہ درست ہے کہ یزید بن رومان سے بھی ایک روایت بیس رکعت کی موجود ہے۔ لیکن بندہ نے جوروایت پیش کی ہے وہ سائب بن یزید سے ہے اور سنن کبریٰ میں موجود ہے۔ اب آپ یہ مصرع اپنے آپ پر چسپاں
|