أُفْطِرُ! جی میں تو ہمیشہ کے لیے روزہ رکھاکروں گا اور کبھی افطار نہیں کروں گا۔ اور تیسرے صاحب یوں بولے۔ أنَا أعْتَزِلُ النِّسَاءَ فلا أتَزَوَّجُ أبَدًا جی میں تو ہمیشہ کے لیے عورتوں سے الگ تھلگ رہوں گا۔ کبھی شادی نہیں کروں گا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ماجرے کا علم ہوا تو ان کے پاس آئے۔ اور (غضب سے) فرمایا۔ ” تم ہی وہ لوگ ہو جنھوں نےایسی ایسی باتیں کی ہیں۔ خدا کی قسم میں تم سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ اور تم سے کہیں بڑھ کر خشیت الٰہی اور تقوے میں سرشار ہونے والا ہوں۔ اس کےباوجود میں روزہ بھی رکھتا ہوں افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز بھی پڑھتا ہوں۔ سوتا بھی ہوں۔ میری بیویاں بھی ہیں۔ (یاد رکھو!)
(فمنْ رغِب عَنْ سُنَّتِي فَلَيسَ مِنِّى)
”جو میری سنت سے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں۔ “
یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات گرامی ہیں۔ جناب آپ اندازہ فرمائیں۔ کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کہاں اورہم ادنیٰ لوگوں کو اُن سے کیانسبت؟وہ تو معصوم اور خُدا کی محبوب ہستی ہیں۔ لیکن اُنہوں نے نفلی نماز اور روزہ میں تجاوزکرنے والوں کو نہ صرف ناپسندکیا ہے بلکہ خفا ہوئے ہیں۔ اور فرمایا ہے:
(فمنْ رغِب عَنْ سُنَّتِي فَلَيسَ مِنِّى)
”جو میری سنت سے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں۔ “
غور فرمائیے کہ اس حدیث سے اس بات کی بھی قلعی کھل گئی۔ کہ اگر آٹھ رکعت تراویح سنت ہی ہیں تو بیس رکعت میں یہ آٹھ رکعت بھی تو آجاتی ہیں۔ اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ملاحظہ کیجئے۔
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللّٰهَ إِنَّ اللّٰهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ) (سورة حجرات آيت نمبر 1پاره نمبر 26)
اے ایمان والو!اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نہ بڑھو اور اللہ
|