کھائے بیٹھےہوں۔ حقیقت میں جواب دینے والی شخصیت ہی ان کی کچھ مدد نہیں کرسکی۔ البتہ جہاں پر قاضی صاحب کو اپنی مددخود کرنا پڑی ہے وہاں انہوں نے الزام تراشی سے بھی گریز نہیں کیا۔ چنانچہ اس ضمن میں ملاحظہ ہو۔
محمد اسحاق صاحب کابیان
ایک دن میں حافظ عبدالمنان صاحب کا چوتھا رقعہ لے کر قاضی صاحب کے پاس گیا۔ قاضی صاحب نےدریافت کیا کہ آپ کل رقعہ لے کر نہیں آئے میں نے کہا کہ کل مولوی صاحب گوجرانوالہ گئے ہوئے تھے قاضی صاحب کہنے لگے کہ اُستادوں سے مشورہ لینے گئے ہوں گے۔ میں نے کہاکہ مجھےکیا علم اُن کے وہاں رشتہ دار بھی ہیں۔ شایدانھیں ملنے گئے ہوں گے۔ چوتھے رقعہ کے جواب میں قاضی صاحب نے کہہ دیا۔ جس صاحب کےہاتھ سے مجھے موصول ہوا اُن کی زبانی مجھے معلوم ہواکہ آپ کو میری تحریر کا جواب دینے کے لیے گوجرانوالہ کےچکر لگانےپڑے اور مشورہ ازاساتذہ کی بھی ضرورت محسوس ہوئی“۔ قاضی صاحب کا یہ رقعہ پڑھ کرحافظ عبدالمنان صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ تم نےقاضی صاحب کو یہ کہا ہے کہ وہ گوجرانوالہ مشورہ کے لیے گئے تھے۔ میں نےکہا۔ نہیں۔ میں نے تو صرف اتنا کہا تھا کہ وہ گوجرانوالہ گئے تھے۔ یہ بات سن کر میں حضرت قاضی صاحب کے پاس پہنچا اور کہا کہ حضرت قاضی صاحب میں نے کب کہا تھا کہ حافظ عبدالمنان صاحب استادوں کے پاس مشورہ کے لیے گئے تھے؟میں نے تو صرف یہی کہا تھا کہ وہ گوجرانوالہ گئے تھے۔ اور آپ نے لکھ مارا کہ وہ استادوں سے مسودہ تیار کروانے گئے تھے۔ تو قاضی صاحب اپنے فنکارانہ انداز میں بولے پھر کس کام سے وہ گوجرانوالہ گئے تھے۔ یہ تھا قاضی صاحب کا صرف اپنا زغم!جسے عالم دین اور تحریری مناظر کی حیثیت سے قاضی صاحب نے بہت غلط رنگ دیا۔ اوراس ایک بہانہ تراشتے ہوئے حافظ عبدالمنان صاحب سے تحریری
|