کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔ حافظ عبدالمنان صاحب نے کہنا کہ دکھائیے۔ کہاں لکھا ہے؟توفوراً حافظ حمد اسلم صاحب نے کہا کہ لوگ خلافت عمر رضی اللہ عنہ میں بیس رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔ اس وقت کچھ لوگ مسجد میں موجود تھے۔ حافظ اسلم صاحب کی زبان کی صفائی پر ہنسنے لگے۔ کہ پہلے حافظ اسلم صاحب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام لے رہے تھے کہ جلد ہی انہیں بزرگوں کی تقلید میں بیان بدلنے پڑے۔ یہ بھی ان لوگوں کی فنکاری سمجھنی چاہیے کہ پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام لیا اگر بات بن گئی تو بہتر ورنہ دوسری دفعہ لوگوں کا نام لگا دیا۔ اور استدلال کی قلعی ایسے جمادی کہ وہ لوگ صحابی تھے۔ یہاں پر ان لوگوں کو مطلع کردیا جاتا ہے کہ یہ لوگ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام لینے میں اتنی خوبی سمجھے بیٹھے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نام سے بیس(20)تراویح کا مسئلہ حل ہو جائے گا غلط ہے جب وہ صحیح دلیل سے اسے ثابت ہی نہیں کر سکتے تو پھر یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر الزام نہیں تو اور کیا ہے؟اس کے بعد حافظ عبدالمنان صاحب نے حافظ اسلم صاحب نے چند سوالات کئے۔ تو بیچارے کو قلعہ دیدار سنگھ کی طرف جھانکنا پڑا۔ اس وقت حافظ محمد اسلم کی خوب تسلی ہوچکی تھی۔ اور اپنی شرمساری کو مٹانے کی خاطر حافظ عبدالمنان صاحب سے ایک رقعہ لکھوالیا اور وعدہ کیا کہ میں کل تک اس کا جواب لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں گا۔ خیال تھا کہ یہ سرخ رونوجوان تو اپنے وعدے کا خیال رکھے گا۔ لیکن
اُن کی خوبی اخلاق کہ وعدہ توکیا
اپنی یہ شومئی قسمت کہ وہ پورا نہ ہو
نورپور پہنچنا تو کجا آج تک اس طرف رخ بھی نہیں کیا۔ اس سے پیشتر حافظ محمد اسلم صاحب کے والد ماجد چنے چاول کے تاجر دیوبندیوں کے مناظر بھی ایک رقعہ لکھوا کر لے گئے تھے اور دوسرے دن تک اس کا جواب دینے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن آج تک دونوں باپ بیٹا جواب لے کر نہیں آسکے جیسے باپ بیٹا جواب کے نام پر ادھار
|