دلیل ہے۔ خیرقاضی صاحب کا یہ پانچواں رقعہ تھا۔ رقعہ پہنچنے سےبیشتر ہمارا پمفلٹ شائع ہو چکا تھا۔ چنانچہ اس رقعہ کا جواب حافظ عبدالمنان صاحب نے قاضی صاحب کو دےدیا۔ اُدھر قاضی بھی پمفلٹ چھپوانے کی تیاری کر رہے تھے۔ پمفلٹ چھپنے سے بیشتر حافظ عبدالمنان صاحب کارقعہ نمبر(7)قاضی صاحب کومل چکا تھا اس رقعہ میں بھی حافظ عبدالمنان صاحب نے یقین دلایا تھا کہ آپ اطمینان رکھیئے۔ آپ کا رقعہ نمبر(5) جمعیت کے ٹریکٹ نمبر(6) میں شائع کردیا جائے گا۔ لیکن قاضی صاحب نے اپنی دیانت اور خلاصی اس میں جانی کہ رقعہ نمبر(5)کو رقعہ نمبر(6)کہہ کر شائع کردیا جائے۔ قاضی صاحب کو بعد میں بھی موقع ملا تھا کہ اپنی دیانت کا اظہار فرما لیتے۔ کیونکہ بدقسمتی سے ان کا آخری رقعہ ادھورارہ گیا۔ جس کے لیے انھوں نے دو ورق چار صفحات بعد میں چھپوائے۔ جس کے ساتھ ہی حافظ عبدالمنان صاحب کا رقعہ چھپنا چاہیے تھا۔ خیر!زحمت تو دشمنوں نے بھی بہت اٹھائی کہ انہیں عوام میں تقسیم شدہ پمفلٹ کی کاپیاں واپس لینا پڑیں۔ جن میں دو ورق بعد میں نتھی کرنا پڑے۔ چنانچہ اب اسے ترمیم شدہ ایڈیشن کہنا چاہیے۔ کیونکہ اس کے ٹائٹل آخری سطر میں وہ غائبانہ اعتراف کے ساتھ ساتھ تشہیر بھی رہے ہیں کہ ابھی حافظ عبدالمنان صاحب سے مزید رقعہ جات آرہے ہیں۔
اب قاضی صاحب یہ رٹ لگانے میں شاید اپنی فتح سمجھے بیٹھے ہیں کہ”میرا شاگرد جس جگہ کہو خدمت کے لیے پہنچ جائے گا“۔ نرالا ڈھنک کیا کہنے شان کے کہ تحریری گفتگو تو حافظ عبدالمنان صاحب سے کررہے ہیں۔ زبانی مناظرہ کے لیے اپنے شاگرد پیش ہو رہے ہیں۔ کیونکہ اس طرح قاضی صاحب اپنے شاگرد کو شکست جیسا تمغہ دلوا کر اپنی جیت سمجھنا چاہیں گے۔ لیکن جناب قاضی صاحب کا تلمیذ رشید ملک بشیر احمد صاحب آڑھتی کا صاحبزادہ حافظ محمد اسلم صاحب ایک اور ساتھی کو ساتھ لیے غالباً(25)رمضان المبارک کو نور پور آیا۔ قاضی صاحب کے تیار کردہ بھیجے نوجوان نے حافظ عبدالمنان صاحب سے چند سوالات کئے۔ سوالات کے دوران حافظ اسلم نے
|