Maktaba Wahhabi

169 - 896
دیں تو یہ باور کریں گے۔ جیسے واقعی ان کو چاند و ستارے نظر آرہے ہوں۔ لہٰذا بشیر احمد صاحب کے حق میں ان کی گواہی معتبر نہ ہو گی۔ کن کی؟ آنسو بہار ہے ہیں جو محفل کےساتھ ساتھ خیر!عصر تک یہ سہ رکنی حضرات کافی شور مچاتے رہے اور حافظ عبدالمنان کو جاہل گردانتے رہے۔ تاہم دیوبندی مقلدین کے مناظر، چنےچاول کے تاجر ملک بشیر احمد آڑھتی نے حافظ عبدالمنان صاحب کو کہا کہ تو مجھ سے مناظرہ کرلے۔ اسی گفتگو میں کبھی کبھی ماسٹر نصر اللہ صاحب بھی ٹپکتے رہے۔ تاہم یہ دوست سوچی سمجھی سکیم کے تحت واپس چلے گئے۔ ان کا خیال تو تھا کہ شاید حافظ صاحب اتنے پر گفتگو ختم کردیں گے۔ لیکن ملک بشیر احمد صاحب آڑھتی اُسی روزحافظ عبدالمنان صاحب سے ایک اور رقعہ لے گئے تھے۔ جس کےجواب کا انہوں نے دوسرے دن کاوعدہ کیا تھا۔ اب نامعلوم یہ رقعہ ملک بشیر احمد صاحب کی آڑھت کی نذر ہوگیا۔ قاضی صاحب کو اس کاعلم نہ ہوسکا۔ اور ملک صاحب موصوف نےقاضی صاحب کو اتنی تسلی دینی ہی کافی سمجھی کہ اب شاید حافظ عبدالمنان صاحب رقعہ نہیں بھیجیں گے۔ اور یہ لوگ نور پورمیں اپنی تمام ہنگامہ آرائی کو اپنی فتح سمجھنے لگ گئے۔ قاضی صاحب نے تو رقعہ کے جواب میں سہ رکنی مناظر کمیٹی کی غوغا آرائی کافی سمجھی۔ لیکن ملک بشیر احمد صاحب بھی ایک رقعہ پیشگی لے گئے۔ چھ روز کے انتظار کے بعد حافظ عبدالمنان صاحب نے رقعہ نمبر(6) بھیج دیا۔ جس کو دیکھ کر قاضی صاحب نے موئے آتش دیدہ کی طرح بل کھائے۔ جس کا اظہار قاضی صاحب کے بناوٹی رقعہ نمبر (5) سے ہوتا ہے دیوبندی مقلدین کی جانب سے اب تین رقعے جا چکے تھے۔ اور ان کی طرف سے مسلسل خاموشی رہی۔ دوسری طرف قاضی صاحب نے قلعہ دیدار سنگھ میں بھی اس تحریری گفتگو کا خاصا چرچاکردیاتھا۔ اُدھر ہماراپمفلٹ چھپ چکا تھا۔ قاضی صاحب نے اسی وقت ناجائزفائدہ اٹھایا۔ ایک رقعہ بھیج دیا۔ جس کو خود ہی رقعہ نمبر (6) کہنا شروع کردیااور یہ ان کے ہاں کمال دیانت کی
Flag Counter