دردی کا اظہار کیا ہے۔ اگر قاضی صاحب ہی عالم تصوف میں اللہ دتہ صاحب میں”حلول فرما گئےتھے۔ تو اللہ دتہ صاحب ہی انہیں اسی جامعہ میں رہنے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ کہیں قاضی صاحب کو اصل روپ میں کردار ادا کرنا پڑا ہے۔ شاید اسی وقت اللہ دتہ صاحب عاجز ہو گئے ہوں گے۔ یا پھر پمفلٹ کے مؤلف بننے میں رضا مند نہیں ہو گے کہ انہیں پھر عاجز ہونا پڑا۔ واقعی وہ سرا پا ہمدرد ہی معلوم ہوتے ہیں۔
قصہ مختصر! قاضی صاحب مدظلہ العالی کے پاس حافظ عبدالمنان صاحب کی پانچویں تحریر کا جواب نہیں تھا۔ لہٰذا قاضی صاحب اپنے وقار اور وسعت ظرف سے اس تحریر کا یوں جواب دیتے ہیں۔ حلقہ معتقدین کی ایک میٹنگ بلائی جاتی ہے۔ جس میں قاضی صاحب کے زخموں کی مرہم پٹی کا مشورہ ہوتا ہے۔ طرز علاج یہ طے ہو اکہ چند احباب نور پور جائیں اور حافظ عبدالمنان صاحب کو ڈرا دھمکادیں۔ تاکہ وہ مزید تحریر نہ بھیج سکیں۔ چنانچہ قاضی صاحب کی سبکی دور کرنے کے لیے تین معالج تیار کئے گئے اور یہ اخلاق کریمانہ کا بہترین نمونہ تھے۔ اور قاضی صاحب کے حلقہ تلمیذ سے تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ ماسٹر نصر اللہ صاحب کی قیادت میں ملک بشیراحمد صاحب اور مولوی عباس علی صاحب نور پور تشریف لائے۔ یہاں سے اپنے ہم مسلک احباب کو ساتھ لیا اور حافظ عبدالمنان صاحب کے ہاں آدھمکے۔ حافظ صاحب اس وقت اکیلے تلاوت کلام پاک میں مشغول تھے۔ چنے چاول کی تجارت کرنے والے ملک بشیر احمد صاحب آڑھتی بھی اپنے وضاحتی بیان میں یہی کہتے ہیں کہ حافظ صاحب اکیلے تلاوت قرآن میں مشغول تھے۔ البتہ مسجد میں موجود باقی آدمیوں کے متعلق انہیں آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھےیا بیٹھے تھے ملک بشیر احمد صاحب جو روایت بیان کررہے ہیں بیچارے خود اس بارے میں پریشان ہیں۔ چنانچہ مزید تائید کے لیے انھوں نے پانچ آدمیوں کا نام لیا۔ ہے ان پانچ آدمیوں میں سے چار مقلد ہیں جو انہی کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ قاضی صاحب اگر انہیں دن کے وقت رات کہہ
|