Maktaba Wahhabi

167 - 896
اضافہ کوان کے ہاں کوئی حرج نہیں ہوا کرتا۔ اور یہ بھی قاضی صاحب کے ذہنی ہیجان کا نتیجہ ہے کہ یہاں پر وہ مولوی بشیر الرحمٰن صاحب (نورپوری)مدرس جامعہ شرعیہ و خطیب جامع اہلحدیث کرشنا نگر گوجرانوالہ کو اعتراض کنندہ ٹھہرارہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ بوکھلاہٹ میں ہی قاضی صاحب کو اعتراض کنندہ مولوی بشیرالرحمٰن صاحب نظر آئے ہیں۔ خیر ہم سمجھتے ہیں کہ بخاری شریف سے گیارہ رکعت والی روایت اگر قاضی صاحب کو اختیار ہوتا تو نکال دیتے۔ لیکن اس موقع پر بیچارے سوائے حدیث پر جرح قدح کے اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ احادیث صحیحہ پر نکتہ چینی کرنے کے خاصے ماہر ہیں۔ چنانچہ اس مقام پر عجیب منطق کا اظہار فرماتے ہیں۔ وہ رقعہ جس پر حافظ عبدالمنان صاحب نے بخاری شریف کی حدیث لکھی تھی۔ نیچے حافظ عبدالمنان صاحب کے دستخط تھے۔ اسی کاغذ کی دوسری طرف قاضی صاحب نے الجواب واللہ الموفق للصواب لکھ کراپنے نتیجہ فکر کا اظہار کیا۔ نیچے اپنے دستخط کر کے کاغذ سائل کو واپس دے رہے ہیں۔ قاضی کی تحریر حافظ المنان صاحب کے پاس پہنچتی ہے۔ جس کا جواب حافظ صاحب نے تحریر کردیا۔ قاضی صاحب کو بھی مجبوراً اس تحریر کا جواب دینا پڑا۔ اسی طرح دونوں حضرات کے مابین سلسلہ وار چار تحریر یں ہوئیں۔ جو کہ آگے درج کی جائیں گی قاضی صاحب تحریر میں باقاعدہ حصہ لیتے رہے لیکن بعد میں اپنی معصومیت کا یوں اظہار فرماتے ہیں کہ ہماری طرف سے صرف الجواب لکھا گیا تھا۔ الجواب بنام حافظ عبدالمنان تو نہیں لکھا تھا۔ قاضی صاحب کو بھی پمفلٹ لکھتے وقت یہ خیال آیا تھا۔ جب حافظ عبدالمنان صاحب کا دوسرا رقعہ پہنچا تھا اُس وقت ہی کہہ دیتے کہ میں نے حافظ عبدالمنان صاحب کو نہیں لکھا تھا کہ اس کا جواب دیں۔ اس طرح قاضی صاحب شکست خوردہ اظہار معصومیت سے بھی بچ جاتے۔ دیوبندی مقلدین کا پمفلٹ پڑھتے وقت معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اللہ دتہ صاحب ہمدردہیں۔ جو کہ قاضی صاحب سے مزید تفصیلی حواشی لے کر پمفلٹ لکھ رہے ہیں۔ لیکن ہمدرد صاحب نے بھی بڑی بے
Flag Counter