Maktaba Wahhabi

166 - 896
معتقدین حضرات وہیں سر تسلیم خم کردیتے ہیں۔ اسی بنا پر یہاں بھی فرمادیا کہ حضرت سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیس رکعت نماز پڑھا کرتے تھے اور وتر پڑھتے تھے۔ اور روایت سنن الکبریٰ میں بسند صحیح موجود ہے۔ قاضی صاحب جسے بسند صحیح جیسے سخن سے الاپ رہے ہیں۔ اس کی قلعی تو کھل کر واضح ہو گئی ہے۔ جسے آپ آئندہ صفحات میں پڑھیں گے۔ ساقط الاعتبار اور مجہول روایات پر بھی اس گروہ نے کیسی ملمع سازی کی۔ لیکن افسوس کہ قاضی صاحب کو ایسے موقع پر بزرگوں کا سہارا بھی نہ مل سکا۔ بد نصیبی کے ہم قائل تو نہیں تھے لیکن! ہم نے برسات میں جلتے ہوئے گھر دیکھے ہیں یہ بحث تو آگے چل کر آئے گی کہ آیا یہ روایت سنداً صحیح ہے۔ یا ساقط الاعتبار تاہم اس وقت قاضی صاحب کی فراخدلی یہ ہے کہ ایک طرف روایت بیان کرتے ہوئے رمضان کے لفظ سے نسیان ہوگیا اور دوسری طرف یہ نسیان اضافہ کی صورت میں رونما ہوا۔ کہ وتر بھی پڑھتے تھے۔ حقیقت میں ایسی جراءت شہرہ آفاق ہستیوں کے لائق ہی ہوا کرتی ہے۔ اصل کتاب کی طرف رجوع کی ضرورت ہے۔ بس کتاب کا نام کافی ہے۔ بات جو جی میں آئے کہہ دیں۔ بغیر کسی حیل و حجت کے ماننے والے جہاں موجود ہوں وہاں ایسے تکلفات کی ضرورت ہے۔ یہ بھی قاضی صاحب کی نوازش ہے کہ اس گناہ کی معافی اپنے پمفلٹ صفحہ(13)میں مانگ رہے ہیں۔ کہ ”میں نے نہ کوئی عبارت حدیث درج کی تھی اور نہ ہی لفظی ترجمہ ہونے کی تصریح کی تھی“ایک طرف ان حضرات کو اپنے علم پر بہت ناز ہے۔ دوسری طرف جس روایت پر تمام عمارت کھڑی کرنا مقصود ہوتی ہے۔ اس کے لیے سنداً صحیح کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کتاب کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب بیان کرنے میں نسیان اور
Flag Counter