اور وقار کی خاطر ہوتی ہے۔ کبھی موقع ملا تو اس کی اچھی طرح نقاب کشائی کی جائے گی۔ کہ ان کی اساس تقلید اور قول وعمل میں اس قدر تضاد کیوں ہے؟ لطف کی بات یہ ہے کہ اپنے ائمہ کی پیروی میں جو کچھ کیا جاتاہے۔ اُسے قرآن وسنت سے موسوم کیا جاتا ہے۔ چاہے اس کاقرآن وسنت سے دور تک کاواسطہ نہ ہو۔ لیکن ان لوگوں میں ایک بڑی خوبی ہے کہ جس چیز کو آئمہ احناف کی پیروی میں اپنا لیں گے۔ اس کو کسی قیمت پر ترک کرنے کو تیار نہیں ہوں گے۔ خواہ وہ صریحاً کتاب وسنت کی خلاف ورزی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ ایسے موقعوں پر تمام تر تکلفات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ کوئی ضعیف سی روایت ہی ان کے قول وعمل کی تائید میں مل جائے۔ خواہ ائمہ احناف اور بزرگان دین نے ایسی روایات کو ناقابل قبول بیان کیا ہو چنانچہ اس وقت یہ اپنی مذہبی اساس تک کو بھول جاتے۔ اور پھر ان لوگوں کی فنکاری یوں نمایاں ہوتی ہے کہ یہ اپنے کمزور دلائل کی پختگی اسے سنت رسول خلفاء رشدین کہنے میں تلاش کرتے ہیں۔ ہمیں بھی کوئی ملال نہ ہوتا کہ ایسے اعمال کو ائمہ احناف رحمۃاللہ علیہم کے اقوال ہی رہنے دیا جاتا۔ یا علماء احناف کے اعمال کی پیروی کہہ لیتے۔ یہاں تک بھی اگر ان لوگوں کو اطمینان نہ ہوتا تو پھر دیوبندی امت کا اجماع ہی کہہ لیتے۔ لیکن افسوس تو اُس وقت ہوتا ہے۔ جب آئمہ احناف رحمۃ اللہ علیہم میں بھی ان کے عمل کی تائید نہیں ملتی تو یہاں پر استدلال انوکھی صورت میں رونما ہوتا ہے کہ جناب یہ خلفاء راشدین کی سنت ہے تو ایسی صورت میں ان سے یہی کہناہوگا ؎
آگ تقلید کی سینے میں جو حضرت ہوتی
نہ یہ شکوہ کہیں ہوتا نہ شکایت ہوتی
بیچارے دیوبندی مقلدین خدا تعالیٰ کی عطائی عقل وخرد اور فہم وادراک ایسی صلاحیتوں کی استعمال نہیں کرنا چاہتے اور یہ بھی ان کی بدنصیبی ہی سمجھئے۔ کہ یہ لوگ خود کو اس قدر کج فہم جانتے ہیں۔ کہ کتاب وسنت کو سمجھنے کی سعی نہیں رکھتے۔ جو کتاب اور صاحب
|