کرتے کہ واقعی یہ روایت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں مگر آپ نے ان دو اصولی، معقولی اور مبنی برانصاف طریقوں سے تو کوئی سا طریقہ نہ اپنایا اُلٹا یہ فرما دیا”میں نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی وہ بھی آپ نے نہیں مانی۔ “(آپ کاخط نمبر 11 ص1)
5۔ بندہ نے آپ کی طرف سے آپ کے پچھلے خط میں پیش کردہ”والدہ محترمہ“ والی دلیل کے تین جواب لکھے ان سے کسی ایک کا بھی آپ سے رد تو نہ ہوسکا البتہ آپ نے”اس خط میں بھی تم نے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پرحملہ کیا ہے۔ “(آپ کا خط نمبر 11ص 2) لکھ کر آپ کی طرف سے آپ کی حالیہ اور سابقہ تحریرات میں اس بندہ پر لگائے گئے بہتانات میں ایک اور بہتان کا ضرور اضافہ فرمادیا ہے تو محترم آپ جس قدر چاہیں جی بھر کر اس بندہ پرالزام وبہتان تراش لیں، اسے بُرا بھلاکہہ لیں اور اس کے دینی بھائیوں پر کیچڑ اچھال لیں اس سلسلہ میں آپ کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ اس طرح کرنے سے آپ کا مدعا ”فروعی مسائل میں ہم امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کرتے ہیں“(آپ کاخط نمبر 4ص 2) اور”ہم مسائل شرعیہ میں امام صاحب کاقول وفعل اپنے لیے حجت سمجھتے ہیں اور دلائل شرعیہ میں نظر نہیں کرتے۔ “ (آپ کاخط نمبر 8 ص1) تو ہرگز ہرگز ثابت نہیں ہوگا۔
6۔ محترم آپ سے انتہائی مؤدبانہ التماس ہے کہ آپ بندہ کے خطوط ساتویں، آٹھویں، نویں، دسویں اور گیارھویں کا جواب دیں اور آپ بھی تو اپنے موضوع ”مسئلہ تقلید“ کے اندر رہیں صرف اس بات کی دوسروں کو تلقین کرنے پر ہی اکتفانہ کریں:
(أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ) الاية
7۔ آخرمیں یہ بندہ آپ سے نہایت ہی مؤدبانہ اپیل کرتا ہے کہ آپ ایک دفعہ پھر
|