ضرورت نہیں“۔ (آپ کا خط نمبر 6 ص 3) تو آپ کے ان ارشادات کی روشنی میں بندہ نے اپنے خطوط میں بار بار لکھا”یہ بندہ آپ کی موضوع“ مسئلہ تقلید سے ہٹی ہوئی کسی بات کا کوئی جواب نہیں دے گا تاوقتیکہ اس موضوع”مسئلہ تقلید پر ہمارا کوئی باہمی فیصلہ نہ ہوجائے ان شاء اللہ تعالیٰ اس لیے آپ جوچاہیں مسئلہ شروطِ نمازوغیرہ بڑے شوق سے لکھتے رہیں“۔ (بندہ کاخط نمبر 7 ص1) پھر بندہ نے ہی لکھا”آپ مسئلہ طلاق ثلاثہ، مسئلہ تراویح، مسئلہ ارکان نمازوغیرہ پانی میں بھڑ وغیرہ کاگرنا، جہاز میں نمازپڑھنا اور اس قسم کےدیگر مسائل بڑی خوشی سے پوچھتے رہیں اور بھی غلط یا صحیح جو آپ کے منہ میں آئے لکھتے رہیں یہ بندہ اپنے موضوع مسئلہ تقلید سے ہر گز نہیں ہٹے گا ان شاء اللہ تعالیٰ(بندہ کا خط نمبر9 ص1)
3۔ تقلید کے اثبات کے لیے جس قدر مواد آپ نے پیش کیا بندہ نے اس تمام مواد کا تفصیلاً جواب دے دیا ہے میرے خطوط کسی عالم کو پڑھائیں پھر ان سے پوچھیں آیاتقلید سے متعلق آپ کی تمام باتوں کا ان میں جواب ہے یانہیں؟پھر بندہ نے آپ کے تقلید پرپیش کردہ تمام مواد کا اجمالاً جواب بھی دیا جو اس جگہ درج کیا جاتا ہےتفصیلی جواب بندہ کے خطوط میں ملاحظہ فرمالیں۔ آپ کی درج کردہ آیات نیزقرآن مجید کی دیگر آیات میں سے کسی ایک آیت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے کسی ایک حدیث سے بھی آپ کامدعا”تقلید“ کسی کی کتاب وسنت کےمنافی رائے کو ماننے کا جواز ثابت نہیں ہوتا ذرا انصاف کیجئے آپ کس طرف جارہے ہیں۔ “(بندہ کا خط نمبر 9 ص 2)
4۔ رہی حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ والی روایت تواس کے متعلق بندہ لکھ چکا ہے۔ ”یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل ثابت نہیں۔ “اس کی تفصیل یادلائل آپ بندہ کے خط نمبر 7 ص 6 پر ایک دفعہ پھر پڑھ لیں تو جناب کا فرض تھا کہ اس روایت کو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت فرماتے یا صاف لفظوں میں اعتراف
|