کی والدہ محترمہ نے کہہ دیا کہ فلاں تمہارا باپ ہے توتم نے اپنی والدہ سے کوئی دلیل طلب نہیں کی“۔ (آپ کاخط نمبر10 ص 3)
بزعم خود تو آپ نے اس سے تقلید کو کشید فرمایا ہے جب کہ تقلید اس سے بالکل کشید نہیں ہوتی اولاً تو اس کے لیے میری یا آپ کی والدہ محترمہ کا اپنی اولاد کو ان کے باپ سے روشناس کرانا تقلید ہے ہی نہیں کیونکہ تقلید تو(صحیح قول کے مطابق) کتاب وسنت کے منافی رائے کو ماننے کا نام ہے اور والدہ کا اپنی اولاد سے کہنا”فلاں تمہارا باپ ہے“کوئی کتاب وسنت کے منافی رائے نہیں۔ لہٰذا والدہ کی اس بات کے ماننے کو تقلید قراردینا درست نہیں۔
اور ثانیاً اس لیے کہ اگر آپ لوگ اپنی والدہ محترمہ یا کسی اور کے قول”فلاں تمہارا باپ ہے“ کو ماننا واقعی تقلیدسمجھتے ہیں تو پھر آپ تو اپنی والدہ محترمہ یا کسی اورکے بھی مقلد ہوئے جبکہ مقلدین حضرات بھی یہ کبھی نہیں کہتے اور کبھی نہیں سمجھتے کہ وہ اپنی والدہ محترمہ یاباپ کا نام بتلانے والے کے بھی مقلد ہیں وہ تو صرف یہی کہتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ بس حضرت الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کےہی مقلد ہیں یا پھر وہ یوں کہتے ہیں”ہم شرعی مسائل میں حضرت الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کےقول اور فعل کوحجت سمجھتے ہیں“۔ الخ
یہ آج تک کسی مقلد نے بھی نہیں کہا کہ وہ”فروعی مسائل میں اپنی والدہ محترمہ کے قول اورفعل کو حجت سمجھتاہے“۔ الخ
اور ثالثاً ًاس لیے کہ اگر والدہ محترمہ یا کسی اور کے قول”فلاں تمہارا باپ ہے“ کو ماننا تقلید ہوتو حضرت الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ کی طرح مجتہدین کی فہرست سے خارج ہوکرمقلدین کے زمرہ میں شامل ہوجائیں گے کیونکہ انہوں نے بھی تو آخر حضرت ثابت رحمۃ اللہ علیہ کواپنی والدہ محترمہ یا کسی اور کے بتانے سے ہی اپناباپ تسلیم فرمایا تو بتائیے صاحب آپ کا اس سے کیا جواب ہے؟
3۔ جناب سےگزارش ہے کہ میرے ساتویں، آٹھویں، نویں اور اس دسویں چاروں
|