مکتوب نمبر10:
84؍8؍29
باسمه تعاليٰ
محترم المقام جناب حافظ صاحب!
سلام مسنون!
آپ کا گرامی نامہ مؤرخہ 84؍8؍27کوملا۔ میں پہلے رقعہ میں تحریر کر چکا ہوں۔ کہ میرے امتحانات ہو رہے تھے۔ کسی اور آدمی سے خط لکھوایا۔ وہ آدمی B.Aتھا۔ اگر اس نے مجتہد غلط لکھ دیا تھا۔ تو وہ میری غلطی نہیں تھی۔ آپ نے جو یہ لکھا ہے کہ مجھے خط لکھنے کا طریقہ اور سلیقہ نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ آپ کو بھی کوئی طریقہ اور سلیقہ نہیں۔ جو مسائل میں نے رقعہ نمبر 9 میں لکھے۔ وہ تقلید کے بارے میں ہی تھے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق جب آپ یہ کہتے ہیں کہ امام صاحب کو صرف سترہ حدیثیں آتی تھیں۔ تو ہم کس باغ کی مولی ہیں۔ ہمیں تو کچھ نہیں آتا۔
جب آپ صحابہ رضی للہ عنھم کی کسی بات پر عمل نہیں کرتے اور تراویح کے مسئلہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کوبدعتی کہتے ہیں اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو دوسری جمعہ کی اذان کے بارے میں بدعتی کہتے ہیں۔ اس لیے حضرت شہید رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے آپ کو چھوٹے رافضی لکھا ہے۔ حافظ صاحب تقلید کے بغیر کوئی چارہ نہیں جب آپ کو آپ کی والدہ محترمہ نے کہہ دیا کہ فلاں تمھارا باپ ہے تو تم نے اپنی والدہ سے کوئی دلیل طلب نہیں کی۔ آئے دن ہمارے خلاف رسائل پمفلٹ شائع کرتے رہتے ہیں۔ اتنا زہر اُگلتے ہو۔ جس کی کوئی انتہا نہیں۔ فروعی مسائل کو دین کا معیار بنائے بیٹھےہو۔ فاتحہ خلف الامام، رفع الید ین، آمین بالجہر، طلاق ثلاثہ، جمعہ کی دوسری اذان، جوتے سمیت
|