اپنی دوسری بات کو غلط کہیں تو امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مسائل شرعیہ میں معصوم عن الخطاء ہونالازم جس کانتیجہ نیچے ملاحظہ فرمایا جاسکتاہے۔
2۔ جس انسان کے قول وفعل کو مسائل شرعیہ میں حجت سمجھاجائے وہ انسان اللہ تعالیٰ کا رسول ونبی ہوتا ہے اور آپ واضح الفاظ میں لکھتے ہیں”ہم مسائل شرعیہ میں امام صاحب کا قول وفعل اپنے لیے حجت سمجھتے ہیں“ تو پتہ چلا کہ آپ اندرونی طورپرامام صاحب کو اللہ تعالیٰ کا رسول ونبی ہی سمجھتے ہیں البتہ بیرونی طورپر انہیں رسول ونبی نہیں کہتے فرمائیے صاحب آیا یہ اندر خانے عقیدہ ختم نبوت کی نفی نہیں؟ نیز کیا یہ سیدالمرسلین خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر ہے یا توقیر؟پھر اماموں اور بزرگوں کو انبیاء ورسل علیہ السلام کےمقام پر بٹھانا اور کس چیز کا نام ہے؟صرف زبانی کلامی امام صاحب کو شرعی محقق اور امام مجتہد کہنا اور انہیں رسول ونبی کہنا رسول ونبی اورغیر رسول ونبی میں فرق کےسلسلہ میں کافی نہیں ٹھنڈے دل سے غور فرمانا ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کابڑا بھلا ہوگا۔
3۔ آپ نے تصریح فرمادی ہے کہ”ہم مسائل شرعیہ میں امام صاحب کا قول وفعل اپنے لیے حجت سمجھتے ہیں اور دلائل شرعیہ میں نظر نہیں کرتے“۔ ذرا غور تو فرمائیں آپ نے یہ کیا کہہ دیاہے؟حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول وفعل کو تو آپ لوگ مسائل شرعیہ میں حجت سمجھیں اور دلائل شرعیہ اور اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب اور اللہ تعالی ٰکے آخری رسول ونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وحدیث میں آپ لوگ نظر تک نہ کریں ازروئے انصاف واخلاص بتائیے کیا یہ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں افراط وغلو اور کتاب وسنت کےحق میں تفریط وتقصیر ہے یا کچھ اور؟
4۔ اس دفعہ آپ نے ”مسائل شرعیہ“ کےساتھ ”فروعی“ کی قید نہیں لگائی پھر اس دفعہ آپ نے مسائل شرعیہ کی تین اقسام سے کسی ایک قسم کی تعیین بھی نہیں فرمائی بتائیے اس کی کیاوجہ ہے؟
|